ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجائینگے،اخترمینگل کی دھمکی،حکومت طالبان کو اپنا سمجھتی ہے اس لئے ان کے بات چیت کر رہی ہے اور شاید ہم غیر ہیں،انٹرویو

اتوار 6 اپریل 2014 04:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6اپریل۔2014ء )بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے دھمکی دی ہے کہ اگر بلوچستان میں سرکاری فورسز کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کی ہلاکتوں اور ان کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو ان کی جماعت پارلیمنٹ کی نشستوں سے مستعفی ہو جائے گی اور کہا ہے کہ حکومت طالبان کو اپنا سمجھتی ہے اس لئے ان کے بات چیت کر رہی ہے اور شاید ہم غیر ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارہ سے انٹرویو میں اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے یہ بات وزیراعظم نواز شریف کو بھی گزشتہ روز ایک ملاقات میں بتا دی ہے۔وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ رواں برس بلوچستان میں تبدیلیوں کا سال ہوگا اور وہاں سیاسی طور پر نمایاں بہتری نظر آئے گی۔

(جاری ہے)

صوبائی رکن اسمبلی نے کہا کہ انھوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہ ان تبدیلیوں کے منتظر تو ہیں لیکن شاید ان کی جماعت پورا سال ان کا انتظار نہ کرے اور اس سے پہلے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے الگ ہو جائے۔

سردار اختر مینگل نے چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرنے کے بعد پچھلے سال ہونے والے عام انتخابات میں مشروط طور پر حصہ لیا تھا۔ ان کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے ان انتخابات میں دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔ دھاندلی کے الزامات کے بعد اختر مینگل نے بطور احتجاج ان نتائج کو تسلیم کیا تھا۔اختر مینگل نے کہا کہ انھیں میاں نواز شریف کی حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔

انھوں نے تلخی سے بھرے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ ’پچھلے دور حکومت میں علیحدہ علیحدہ لاشیں ملتی تھیں، اس حکومت نے یہ سہولت کر دی ہے کہ اجتماعی قبریں ملنے لگی ہیں تاکہ لواحقین کو انھیں تلاش کرنے اور دفنانے میں زیادہ دقت نہ ہو۔علیحدگی پسند بلوچ رہنماوٴں کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کی کوششوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچ حکومت کوئٹہ اور اسلام آباد میں ہوتے ہوئے ان (اختر مینگل) کے ساتھ مذاکرات تو کر نہیں رہی، پہاڑوں میں روپوش مسلح افراد سے کیسے بات کرے گی۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت ان ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات مسائل حل کرنے کے لیے کرنا چاہتی ہے یا محض دکھاوے کے طور پر۔انھوں نے کہا کہ وہ حکومت اور ناراض بلوچوں کے درمیان مذاکرات میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔جب میرے جیسے جمہوریت پسند جس کے ہاتھ میں بیلٹ پیپر ہے، اگر اس کے ساتھی کی مسخ شدہ لاش ابھی تک مل رہی ہے، تو میں اس کو مذاکرات پر کیسے قائل کر سکتا ہوں جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے بلوچ سردار نے کہا کہ یہ مذاکرات اپنے پرائے کا فرق واضح کرتے ہیں۔طالبان کو وہ اپنا سمجھتے ہیں اس لیے گلے شکوے بھی کرتے ہیں اور بات چیت بھی۔ ہم غیر ہیں۔

متعلقہ عنوان :