سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر تھر میں قحط کی تحقیقاتی رپورٹ تیار ، محکمہ صحت سمیت 4 سرکاری محکمے اموات، غفلت کے ذمہ دار قرار

ہفتہ 5 اپریل 2014 03:37

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5اپریل۔2014ء)سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر تھر میں قحط کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چار سرکاری محکموں کی غفلت سے صورتحال خراب ہوئی۔ تھر کے دو مختیار کاروں نے ستمبر میں ہی حکومت کو قحط کے خطرے سے آگاہ کردیا تھا لیکن ان کی سمری تین ماہ تک وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں پڑی رہی۔ تھر کی صورت حال پر سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے تحت حکومت سندھ نے ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی قائم کی تھی۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرلی ہے جس میں فنانس، ریلیف، صحت اور خوراک کے محکموں کو تھر میں اموات اور غفلت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تھر کے تین میں سے دو مختیار کاروں نے ستمبر میں ہی اپنی رپورٹ میں بتا دیا تھا کہ علاقے میں قحط پڑنے والا ہے لیکن ڈپٹی کمشنر تھر پارکر نے کمشنر میرپورخاص کو تھر کی صورتحال کے بارے میں دیر سے مطلع کیا۔

(جاری ہے)

دوسری جانب حکومت سندھ نے بھی ضلع کو آفت زدہ قرار دینے میں دو ماہ سے زائد عرصے کی تاخیر کی۔ دسمبر 2013 کو سمری بھیجی گئی لیکن تھر پارکر کو 28 فروری 2014 کو آفت زدہ قرار دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں تین ماہ تک سمر ی پڑی رہی اور کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2012 اور 2013 کے دوران 141 بچے جاں بحق ہوئے جبکہ سال2013 اور 2014 کے دوران 196 بچے جان سے گئے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ علاقے میں ماہرڈاکٹروں کی 34 اسامیوں میں سے 27 اسامیاں خالی ہیں جبکہ جنرل ڈاکٹروں کی 251 اسامیوں میں سے 163 اسامیاں خالی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے بچوں کی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح پر بھی توجہ نہیں دی۔ وزیر اعلیٰ نے 13 دسمبر کو احکامات دیئے کہ ٹرانسپورٹ کی مد میں فنڈ جاری کئے جائیں اور خوراک تقسیم کی جائے، 28 جنوری 2014 کو پانچ کروڑ 32 لاکھ روپے خوراک کی ترسیل کی مد میں جاری کئے گئے لیکن یہ فنڈز بروقت استعمال نہ کیے گئے۔