پاکستان افغانستان میں امن ومفاہمت کی کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا ،سرتاج عزیز ،سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن لانا چاہتے ہیں، سعودی عرب سے پاکستان کو حال ہی میں ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم پاکستان کے لیے اشد ضروری تھی، گذشتہ نو ماہ کے دوران ان کی حکومت کا ریکارڈ بہت صاف رہا ہے،حکومت کی خارجہ پالیسی سے متعلق سوچ یہی ہے کہ ’ہم عدم مداخلت پر کابند رہیں، انٹرویو

بدھ 2 اپریل 2014 04:31

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2اپریل۔2014ء ) وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن اور مفاہمت کی کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا اور افغانستان کے سیاسی مستقبل کیلئے انتخابی عمل میں افغانستان کی کامیابی کا خواہاں ہے ۔ منگل کو سرتاج عزیز سے دفتر خارجہ میں افغانستان کے نو منتخب سفیر جنان موسوزی نے ملاقات کی اس موقع پر مشیر خارجہ نے افغان سفیر کو پاکستان میں خوش آمدید کہا ملاقات میں دوطرفہ باہمی امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کیا دونوں ممالک میں عوامی رابطے میں بھی اضافے پر زور دیا گیا ۔

ادھرقومی سلامتی اور امورِ خارجہ کے لیے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن لانا چاہتا ہے جو گذشتہ پانچ برسوں سے خرابی کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک خصوصی انٹرویو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ سابق حکومت کے دور میں ایک بھی سعودی وزیر پاکستان نہیں آئے تھے۔حال ہی میں پاکستان اور سعودی عرب کے فوجی اور حکومتی اکابرین نے ایک دوسرے کے ممالک کے کئی دورے کیے ہیں۔

توقع ہے کہ پاکستان کی خطے میں امن کی کوششوں کے سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف اس سال مئی یا جون میں ایران کا دورہ کریں گے۔ویسے بھی یہ مسلم امہ کے اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں۔ اس وقت دنیا میں جو فرقہ وارانہ تقسیم پھیل رہی ہے وہ اسلامی دنیا کے لیے انتہائی مضر ہے، اور مسلم امہ کا اتحاد ہمارا سب سے بڑا مقصد ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے پاکستان میں یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ اسلام آباد اپنے فوجی شام بھیج رہا ہے۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بیان میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان اپنے فوجی کہیں نہیں بھیج رہا۔جب سرتاج عزیز سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اپنا اسلحہ شام بھیج رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں شام سے متعلق کوئی مخصوص معاہدہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سعودی عرب کو چھوٹے ہتھیار اور جنگی طیارے فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ عجیب سی بات ہے کہ ہماری ہتھیاروں کی صنعت ترقی پا رہی ہے اور دنیا بھر کے ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ہتھیار فروخت ہوں۔ سعودی عرب کے لیے کیا مشکل ہے، دنیا بھر میں اسلحہ مل رہا ہے جہاں سے چاہیں خرید لیں؟ یہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ بیٹھے بٹھائے شک کیا جائے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ ایک یا دو ایسے ملک ہیں جو کہ پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، کیا ان پر پہلے ہی شک کرنا شروع کر دیں کہ پتہ نہیں پاکستان اس کی کیا قیمت دے رہا ہے؟ پتہ نہیں اس کا کیا مطلب ہے۔ ماضی کی فوجی حکومتوں نے رقم لے کر جو کچھ کیا ہو سو کیا ہو۔ ہمارا تو ریکارڈ بڑا صاف ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ہوگی کہ ہم عدم مداخلت پر کابند رہیں، اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔

ہمارے بہت سے مسائل ہیں۔ ماضی میں ہم نے کسی اور ملک کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے مداخلت کی۔ ان تمام معاملات میں جن میں ہمارا براہ راست تعلق نہیں ہے ان میں اب ہم غیرجانبدار رہیں گے۔سعودی حکام کی جانب سے حکومت پاکستان کو گزشتہ دنوں ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد پر پارلیمان کے اندر اور باہر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اسے شام کی صورتحال سے جوڑتے ہیں تو کچھ اسے خطے میں مبینہ طور پر بڑھتی ہوئی شیعہ سنی کشیدگی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

سرتاج عزیز نے یاد دلایا کہ 1998 میں بھی جوہری تجربات کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مدد کی تھی۔شام سے متعلق پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے خارجہ امور کے مشیر نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی مکمل طور پر غیرجانبدار ہے: ’ہم نے جو پریس نوٹ جاری کیا تھا اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ عبوری اتھارٹی سے متعلق جو بات تھی وہ ہْوبہو وہی ہے جو جنیوا ون والی بات تھی۔

اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔سرتاج عزیز نے کہا کہ گذشتہ نو ماہ کے دوران ان کی حکومت کا ریکارڈ بہت صاف رہا ہے ۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ حکومت کی خارجہ پالیسی سے متعلق سوچ یہی ہے کہ ’ہم عدم مداخلت پر کابند رہیں، اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ ہمارے بہت سے مسائل ہیں۔ ماضی میں ہم نے کسی اور ملک کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے مداخلت کی۔ ان تمام معاملات میں جن میں ہمارا براہ راست تعلق نہیں ہے ان میں ہم غیرجانبدار رہے ہیں اور رہیں گے۔اچانک ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی اشد ضرورت تھی ’پچھلی حکومت بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بھی بڑا فرق چھوڑ کر گئی تھی۔