قومی اسمبلی کی امور داخلہ کمیٹی میں تحفظ پاکستان بل کثرت رائے سے منظور،اپوزیشن کی ترامیم مسترد،پی پی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم،جے یو آئی (ف)اور جماعت اسلامی کی طرف سے مخالفت، تہمینہ دولتانہ اور ایم کیو ایم کے اراکین میں شدیدجھڑپ ، جب تک وزیراعظم مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں نہیں لینگے ہم مخالفت جاری رکھیں گے،ارکان جے یو آئی، تحریک انصاف کا فوج کو شہریوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دینے ، ایک عدالت میں جاری کیس کو بند کرکے خصوصی عدالت میں منتقل کرنے سمیت دیگر شقوں پر اختلاف، بل دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کیلئے لایا جارہا ہے،ہرشہری کو آرٹیکل 10 کے تحت تحفظ حاصل ہے، بلیغ الرحمان، آئین میں خفیہ اداروں کی جانب سے کسی کو اٹھانا ہو تو طریقہ کار دیا گیا ہے کوئی قانون سازی آئین کیخلاف نہ ہوگی ، خدشات بے بنیاد ہیں،صحافیوں سے بات چیت

بدھ 2 اپریل 2014 04:18

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2اپریل۔2014ء )قومی اسمبلی کی امور داخلہ کی قائمہ کمیٹی میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل اکثریت رائے سے منظور ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف)اور جماعت اسلامی نے مشترکہ طور پر مخالفت کردی ، تہمینہ دولتانہ اور ایم کیو ایم کے اراکین میں جھڑپ ، جے یو آئی (ف) کے اراکین نے کہا کہ جب تک وزیراعظم اس بل کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں نہیں لینگے ہم اس کی مخالفت جاری رکھیں گے ، تحریک انصاف نے فوج کو شہریوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دینے ، ایک عدالت میں جاری کیس کو بند کرکے خصوصی عدالت میں منتقل کرنے سمیت دیگر شقوں پر اختلاف کیا ہے جبکہ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ آئین میں ہر شہری کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے ،یہ بل دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کیلئے لایا جارہا ہے،ہرشہری کو آرٹیکل 10 کے تحت تحفظ حاصل ہے آئین میں اگر خفیہ اداروں کی جانب سے کسی کو اٹھانا ہو تو مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے کوئی بھی قانون سازی آئین کیخلاف نہیں ہوگی ، خدشات بے بنیاد ہیں ہر شہری کو مکمل تحفظ دیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کابندکمرے کا اجلاس منگل کو چیئرمین رانا شمیم کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بل کی مخالفت کی، اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کی جانب سے بل کی مخالفت کرنے پر مسلم لیگ (ن) کی تہمینہ دولتانہ اور ایم کیو ایم کے اراکین میں شدید جھڑپ ہوئی مسلم لیگ (ن) کی تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ جب بھی تحفظ پاکستان بل لایا جاتا ہے تو ایم کیو ایم فوری اس کی مخالفت کیوں شروع کردیتی ہے جس پر ایم کیو ایم کے اراکین نے کہا کہ جب بھی ایسا کالا قانون لایا گیا ہے وہ ایم کیو ایم کے خلاف ہی استعمال کیاجاتا ہے اس بل میں شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے سکیورٹی اداروں کو یہ رعایت دی جارہی ہے کہ وہ جب چاہیں عام شہری کو غائب کردیں ، مسلم لیگ (ن) نے جیلیں کاٹی ہوں تو انہیں پتا ہو کہ جب کسی کو انتقام کا نشانہ بنانا ہو تو اس پر کیاکیا جاتا ہے اس پر تہمینہ دولتانہ مزید غصے میں آگئی اور کہا کہ کیا مسلم لیگ (ن) نے جیلیں نہیں دیکھیں ؟ جس پر کمیٹی کے اراکین نے معاملے کو ٹھنڈا کیا۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے عارف علوی نے کہا کہ ہمیں ترمیم میں بھی بہت سی شقوں پر اعتراض ہے اس لئے ہم نے بھرپور مخالفت کی ہے اور جب یہ بل قومی اسمبلی میں لایا جائے گا تو پاکستان تحریک انصاف کئی ترامیم دے گی ۔ انہوں نے کہا کہ آرمڈ فورسز کو بھی شہریوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دیا جارہا ہے یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے عام شہریوں کو صرف سول اداروں کے ذریعے ہی پکڑا جانا چاہیے اس کے علاوہ جب کسی کا کیس عدالت میں چل رہا تو حکومت جب چاہے گی تو اس کا عدالت میں کیس روک کر اس کو خصوصی عدالت میں منتقل کروادے گی ۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مزید کئی ایسی ترامیم ہیں جن پر ہمیں تحفظات ہیں ذرائع کے مطابق اجلاس میں جے یو آئی کے اراکین نے کہا کہ جب تک حکومت اس بل کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن سے مشاورت نہیں کرتی جے یو آئی اس بل کی مخالفت کرتی رہے گی حکومت نے ابھی تک ہمیں اس بل پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جس کے بعد انہوں نے اس بل کی مخالفت کی ۔ صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے کہا کہ ہم اتفاق رائے سے چند ترامیم لائے ہیں یہ ترامیم ایسی ہیں جو نوک پلک سنوارنے کیلئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد وہی ہے جس کیلئے یہ لایا گیا ہے ۔ ایک سوال پر وزیر مملکت نے کہا کہ ہرشہری کو آرٹیکل 10 کے تحت تحفظ حاصل ہے آئین میں اگر خفیہ اداروں کی جانب سے کسی کو اٹھانا ہو تو مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے کوئی بھی قانون سازی آئین کیخلاف نہیں ہوگی لوگوں کے خدشات بے بنیاد ہیں ہر شہری کو مکمل تحفظ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی عدالت میں کیس چل رہا ہوگا تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ کیس دہشتگردی کا ہے تو اس کیس کو خصوی عدالت میں منتقل کردیا جائے گا اور اسی طرح دہشتگردی کے عدالت میں جب ثابت ہوگا کہ یہ کیس دہشتگردی کا نہیں ہے تو ایسے کیس کو عام عدالت میں منتقل کیا جاسکے گا ۔

انہوں نے کہا کہ سینٹ کی کمیٹی میں پہلے مرتبہ جب یہ بل پیش ہوا تو لگتا تھا کہ یہ بل پڑھے بغیر ہی مخالفت کی گئی ہے اب اس بل پر شق وار غور کیا جائے گا تو امید ہے کہ وہاں سے یہ بل منظور ہو جائے گا ۔