طالبان کی تجویز ہے کہ خواتین اور بچے رہا کردیں،مولانایوسف شاہ،حکومتی اور طالبان شوریٰ کی پہلی ملاقات میں کسی جانب سے کوئی مطالبات سامنے نہیں رکھے گئے تاہم طالبان نے پہلے سے ایک تجویز یہ دی تھی کہ غیر عسکری افراد جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں انھیں رہا کر دیا جائے، دونوں فریقین پہلی مرتبہ آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو یہ بڑی پیش رفت ہے اب آئندہ ملاقاتوں میں دونوں جانب سے بات چیت ہوگی تو اس میں حالات بہتر ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہوگا، طالبان کے مذاکراتی کمیٹی کے رکن کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو ،مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک یا رکاوٴٹ نہیں،طالبان نے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ خواہش ظاہر کی ہے،رستم شاہ مہمند، کسی کو بغیر ثبوت کے گرفتار کیاگیا ہے تو حکومت رہا کرنے پر ضرور غور کرے گی،انٹرویو،لگتا ہے کہ یہ فی الحال تجویز ہی ہے اور طالبان نے دو ٹوک الفاظ میں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا،رحیم اللہ یوسفزئی

پیر 31 مارچ 2014 06:46

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31مارچ۔ 2014ء )حکومتِ پاکستان کے ساتھ طالبان کے مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات میں کسی کی طرف سے کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا بلکہ طالبان نے مبینہ طور پر حکومت کے زیرِ حراست غیر عسکری افراد جس میں خواتین اور بچے شامل ہیں کی رہائی کی تجویز دی تھی۔

مولانا یوسف شاہ سے جب برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو کے دوران پوچھا گیا کہ طالبان نے آخر ایسے کیا مطالبات کیے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اور طالبان شوریٰ کی پہلی ملاقات میں کسی جانب سے کوئی مطالبات سامنے نہیں رکھے گئے تاہم طالبان نے پہلے سے ایک تجویز یہ دی تھی کہ غیر عسکری افراد جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں انھیں رہا کر دیا جائے۔

(جاری ہے)

مولانا یوسف شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر داخلہ سے انھوں نے کہا ہے کہ اب عملی اقدامات کا وقت ہے اور اس میں پیش رفت ہونی چاہیے جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک دو روز میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سے اس بارے میں بات چیت ہوگی جس میں فیصلے کیے جائیں گے۔مولانا یوسف شاہ نے مزید کہا کہ دونوں فریقین پہلی مرتبہ آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو یہ بڑی پیش رفت ہے اب آئندہ ملاقاتوں میں دونوں جانب سے بات چیت ہوگی تو اس میں حالات بہتر ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہوگا۔

ادھر طالبان کی جانب سے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کی معیاد پورا ہونے میں ایک دو روز رہ گئے ہیں۔مولانا یوسف شاہ سے جب جنگ بندی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان اور حکومت کے ساتھ تمام امور پر بات چیت ہوئی ہے اور اس میں بہتری آئے گی۔انھوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آیا جنگ بندی میں توسیع کر دی گئی ہے اور یا طا لبان اس بارے میں اپنا موقف خود بیان کریں گے۔

اس سے پہلے حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہند نے جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے حوالے سے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہم نے طالبان سے کہا ہے کہ ’جنگ بندی کی ڈیڈ لائن ختم بھی ہو جائے تو آپ سمجھے کہ جنگ بندی ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ چند دنوں میں طالبان کے ساتھ ان کی کمیٹی کی ایک اور ملاقات ہوگی اور ہم یہی تصور کریں گے کہ جنگ بندی ہے۔مولانا یوسف شاہ نے مزید کہا کہ دونوں فریقین پہلی مرتبہ آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو یہ بڑی پیش رفت ہے اب آئندہ ملاقاتوں میں دونوں جانب سے بات چیت ہوگی تو اس میں حالات بہتر ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہوگا۔

انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ طالبان شوریٰ اور حکومتی کمیٹی کے درمیان آئندہ ملاقات کب اور کہاں ہوں سکتی ہے۔حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ کوئی ڈیڑہ ماہ سے جاری ہے اور اس دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال بڑی حد تک بہتر ہوئی ہے۔حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک یا رکاوٴٹ نہیں،طالبان نے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ خواہش ظاہر کی ہے کہ قیدیوں کی رہائی پر پیش رفت ہو۔

اگر کسی کو بغیر ثبوت کے گرفتار گیا ہے تو حکومت ان کو رہا کرنے پر ضرور غور کرے گی۔برطانوی نشریاتی ادارہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان نے رہائی کے مطالبات نہیں کئے بلکہ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ قیدیوں کے معاملے پر کوئی پیش رفت ہو۔انھوں نے کہا کہ حکومت قیدیوں کے معاملے پر نظرثانی کر رہی ہے کہ اگر کسی کو بغیر ثبوت کے گرفتار گیا ہے تو حکومت ان کو رہا کرنے پر ضرور غور کرے گی۔

دوسری جانب سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے بتایا کہ طالبان کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کو پہلے تجویز کا نام دیا گیا تھا اور اب اسے خواہش قرار دیا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ یہ فی الحال تجویز ہی ہے اور طالبان نے دو ٹوک الفاظ میں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔انھوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کو آگے لے جانے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔

یاد رہے کہ حکومت سے مذاکرات کرنے والی طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے جمعرات کو کہا تھا کہ طالبان نے ابتدائی طور پر تین سے چار سو قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت سے مذاکرات کرنے والی طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے جمعرات کو کہا تھا کہ طالبان نے ابتدائی طور پر تین سے چار سو قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

قیدیوں کی فہرست کے بارے میں سوال پر انھوں نے کہا تھا کہ ’پہلی فہرست جو دی گئی ہے اس میں تین سے چار سو افراد کے نام شامل ہیں جن کے بارے میں حکومت نے تفتیش اور تحقیق کا وعدہ کیا ہے۔مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ فریقین میں سے کسی نے ابھی قیدیوں کی رہائی سے انکار نہیں کیا اور بات آگے بڑھے گی تو مزید اقدامات ہوں گے۔مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک پر سوال کے جواب میں رستم شاہ مہمند نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک یا رکاوٴٹ نہیں ہے اور جو نقاط طالبان اور جو ہم نے اٹھائے ہیں ان پر غور ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ مرحلہ وار کام ہوگا جسے آہستہ آہستہ طے ہونا ہے۔ انھوں نے مذاکراتی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ضروری ہے کہ جو عمل ہے اس کو ٹریک یا راستے پر رکھا جائے جو کہ ٹریک پر ہے۔میٹنگ کے لیے آنے جانے کے لیے انھیں سہولت دی جائے تاکہ وہ بغیر کسی خوف و خطر کے ہمارے ساتھ بات چیت کر سکے اور یہ بات ہم پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ ہم کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لیں جہاں جانے کے لیے ہمیں آسانی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ دیگر بھی بہت سے معاملات ہیں جس پر بات چیت ہو رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ایسی جگہیں ہیں جہاں پر طالبان اور ہم بات چیت کے لیے آسانی سے آ جا سکتے ہیں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے بات چیت میں کا عمل خراب ہو۔حکومتی کمیٹی کے رکن نے جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے حوالے سے کہا کہ ہم نے طالبان سے کہا ہے کہ ’جنگ بندی کی ڈیڈ لائن ختم بھی ہو جائے تو آپ سمجھیں کہ جنگ بندی ہے۔انھوں نے کہا کہ چند دنوں میں طالبان کے ساتھ ایک اور ملاقات ہوگی اور ہم یہی تصور کریں گے کہ جنگ بندی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان نے کہا کہ ان کے خلاف آپریشنز ہو رہے ہیں تو انھوں نے کہ ان تمام معاملات پر حکومت غور کر رہی ہے۔