ملکی معاشی اظہاریئے بہتر ہو گئے ہیں ،مہنگائی کا دباؤ کم ہوا ہے تاہم مالیاتی کفایت شعاری کا اثر وفاقی اور صوبائی سطح دونوں کے ترقیاتی اخراجات پر پڑا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان

ہفتہ 29 مارچ 2014 07:18

کراچی ( اُردوپوائنٹ اخبار آن لائن۔29مارچ۔ 2014ء ) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ ملکی معاشی اظہاریئے بہتر ہو گئے ہیں ،مہنگائی کا دباؤ کم ہوا ہے تاہم مالیاتی کفایت شعاری کا اثر وفاقی اور صوبائی سطح دونوں کے ترقیاتی اخراجات پر پڑا ہے جس کی اہم وجہ بیرونی رقوم کا فقدان ہے اس لئے مالیاتی استحکام کے اس پہلو پر معیشت کے طویل مدتی امکانات کے تناظر میں ازسرنو غور کرنے کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔

دوسری جانب کمرشل بینکوں سے حکومتی قرض گیری بھی دوسری سہ ماہی میں بڑھی۔ حکومت نے م س 14ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران کمرشل بینکوں سے 188.1 ارب روپے حاصل کیے جبکہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 179.1 ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی تھی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت کی کیفیت پر اپنی دوسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 14ء جمعہ کو جاری کردی۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق مالی سال 14ء کی پہلی ششماہی کے آخر تک ملک کے معاشی اظہاریوں میں واضح بہتری پیدا ہوگئی تھی۔

گرانی کا دباؤ گھٹ گیا ہے (نومبر کے بعد)، زر مبادلہ کے ذخائر اور دسمبر 2013ء میں پاکستانی روپے کی مساوات پر دباؤ کم ہوگیا ہے، بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں بہتری دکھائی دے رہی ہے جسے نجی شعبے کے قرض سے مزید سہارا مل رہا ہے، اور جیسا کہ وزارت خزانہ نے بتایا ہے، جی ڈی پی کی فیصد کے لحاظ سے مالیاتی خسارہ م س 14ء کی پہلی ششماہی میں کم ہوگیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ م س 14ء کی دوسری ششماہی میں مالیاتی اور بیرونی حسابات میں بہتری کا انحصار تھری جی لائسنسوں کی نیلامی کی متوقع آمدنی اور اتحادی سپورٹ فنڈ کی رقوم کی آمد پر ہے۔ تاہم اگر متوقع سرکاری بیرونی رقوم م س 14ء کی دوسری ششماہی میں آگئیں تو اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر کا پورے سال کے ابتدائی تخمینے سے متجاوز ہونے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں بیرونی حوالے سے حاصل ہونے والے حالیہ فائدے کو اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں 1.5 ارب ڈالر کی غیر متوقع آمد سے منسوب کیا گیا جس سے منڈی میں توقعات پیدا ہوئی ہوں گی کہ پاکستان کو م س 14ء کی چوتھی سہ ماہی میں تیل کی ادائیگیاں مؤخر کرنے کی سہولت مل سکتی ہے۔ ”اس کی وجہ سے م س 14ء کی بقیہ مدت میں گرانی کی توقعات کی شدت کم ہونے کے ساتھ بازار میں شرح سود کا منظرنامہ بھی بدل گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کا تخمینہ ہے کہ م س 14ء میں اوسط گرانی 8.5 سے 9.5 فیصد کے درمیان رہے گی۔“رپورٹ کے مطابق کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث م س 14ء میں جی ڈی پی نمو کا ہدف حاصل کرنے کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔تاہم بڑے پیمانے کی اشیا سازی بدستور مضبوط نمو کی حامل ہے جو ملک کی مجموعی اقتصادی نمو کے لیے اچھا شگون ہے۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی بحالی کو توانائی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری، (گردشی قرضے کے تصفیے کے بعد) بجلی کی بہتر رسد، پچھلے چند برسوں کے دوران (اسٹیل، کاغذ، کھاد، مشروبات اور ربڑ کے شعبوں میں) استعداد میں اضافے اور نجی شعبے کے کاروبار کو ملنے والے قرضوں خصوصاً معینہ سرمایہ کاری قرضوں میں اضافے سے مزید تقویت ملی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرض گیری بھی دوسری سہ ماہی میں بڑھی۔ حکومت نے م س 14ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران کمرشل بینکوں سے 188.1 ارب روپے حاصل کیے جبکہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 179.1 ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی تھی۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ حد کے مطابق اسٹیٹ بینک سے قرض گیری کو محدود نہ کرسکی۔ ”بہرکیف، فروری اور مارچ 2014ء میں دو طرفہ رقوم کی آمد اور م س 14ء کی دوسری ششماہی میں متوقع دیگر بیرونی رقوم سے ان اہداف کا حصول آئندہ آسان ہونا چاہیے۔

“رپورٹ کے مطابق اخراجات گھٹنے اور محاصل بڑھنے کی وجہ سے م س 14ء کی پہلی ششماہی کے دوران مالیاتی خسارہ کم ہوکر جی ڈی پی کے 2.1فیصد تک رہ گیا جبکہ پچھلے برس اسی مدت میں 2.7 فیصد تھا جیسا کہ وزارت خزانہ نے بتایا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مالیاتی کفایت شعاری کا اثر وفاقی اور صوبائی سطح دونوں کے ترقیاتی اخراجات پر پڑا۔ اس کا سبب بیرونی رقوم کے فقدان سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔

”ہمارے نقطہ نظر کے مطابق مالیاتی استحکام کے اس پہلو پر معیشت کے طویل مدتی امکانات کے تناظر میں ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ “بجٹ خسارے میں کمی سے ملکی قرضے کے جمع ہونے کی رفتار م س 14ء کی دوسری سہ ماہی میں کم ہوگئی۔ اس کے ہمراہ م س 14ء کی دوسری سہ ماہی میں آئی ایم ایف کو 1.2 ارب ڈالر کی بھاری ادائیگی اور سازگار شرح مبادلہ نے اس عرصے کے دوران سرکاری قرضے کے اسٹاک میں تھوڑی کمی کو ممکن بنایا۔

رپورٹ میں پاکستان کے قرضے کے خاکے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کیونکہ اس کی ہیئت ترکیبی میں قلیل ترین میعادوں کی طرف تیزی سے رجحان بڑھا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت کے لیے اجرائے ثانی اور شرح سود کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک اپنے اس نقطہ نگاہ پر قائم ہے کہ پاکستان کے ملکی قرضے کو از سر متوازن کرکے طویل مدتی پیپر کی طرف لانا ضروری ہے تاہم م س 14ء کی دوسری سہ ماہی میں بہتری کا رجحان تھا جو تیسری سہ ماہی میں برقرار ہے۔

اس سہ ماہی میں حکومت نے پی آئی بیز کے ذریعے 105.6 ارب روپے حاصل کیے جو چار سہ ماہیوں بعد جمع کی جانے والی بلندترین رقم تھی۔ منڈی کے احساسات میں یہ تبدیلی گرانی کے گرتے ہوئے امکانات سے منسوب کی جاسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بازار میں شرح سود مزید بڑھنے کی توقع نہیں کی جارہی۔ رپورٹ کے مطابق عمومی گرانی م س 13ء کی پہلی ششماہی کے 8.3 فیصد کے مقابلے میں م س 14ء کی پہلی ششماہی کے دوران اوسطاً 8.9 فیصد ہوگئی۔

گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت دسمبر 2013ء میں گر کر 9.2 فیصد رہ گئی جبکہ نومبر 2013ء میں یہ دو ہندسی ہوگئی تھی۔ مہنگائی میں کمی کا یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر آمد رقوم نہ ہونے اور آئی ایم ایف کو بھاری ادائیگیوں کے باعث آخر نومبر 2013ء تک دباؤ میں رہے۔ تاہم دسمبر 2013ء میں صورت حال بہتر ہوئی جب آئی ایم ایف سے 554 ملین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی دوسری قسط ملی اور اس ماہ جاری کھاتے میں فاضل دیکھا گیا۔

“درحقیقت دسمبر 2013ء میں پاکستانی روپے کی قیمت میں 3.0 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جولائی سے نومبر 2013ء کے دوران اس میں ڈالر کی نسبت 8.2 فیصد کمی ہوچکی تھی۔“مارچ 2014ء میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر پر دباؤ خاصا کم ہوگیا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف آئی ایم ایف کے قرضے کی بھاری قسطیں ادا کی ہیں اور آخر جون 2014ء سے قبل عالمی مالی اداروں سے خاصی رقوم متوقع ہیں بلکہ مارکیٹ نے خلیج تعاون کونسل کے ایک ملک سے 1.5 ارب ڈالر کی رقم غیر متوقع طور پر ملنے پر بہت مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ نتیجتاً بازار مبادلہ کے احساسات میں تبدیلی کے بعد پاکستانی روپیہ جنوری اور فروری 2014ء کے مہینوں میں مستحکم رہا اور مارچ میں اس کی قیمت خاصی بڑھ گئی۔