مذاکراتی کمیٹیوں اور طالبان کی سیاسی شوریٰ کے درمیان مذاکرات ، طالبان نے حکومتی تحویل میں 3قیدیوں کے بدلے 9مغویوں کی رہائی کی یقین دہانی کروا دی ، طالبان کی قید سے رہائی پانے والوں میں حیدر علی گیلانی، شہباز تاثیر ، وی سی پروفیسر اجمل خان کے نام شامل، مذاکراتی دور نہایت خوشگوار رہا ، قیدیوں کے تبالہ اور سیز فائر پر متفق ہو چکے ہیں ، طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد کی اُردو پوائنٹ سے گفتگوحکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق، دونوں فریقین میں اعتماد بحال ہورہا ہے، مولانا سمیع الحق ، پروفیسر ابراہیم

جمعرات 27 مارچ 2014 07:10

پشاور(رحمت اللہ شباب۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27مارچ۔ 2014ء)طالبان کمیٹی کے ارکان نے آج طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات کو خوشگوار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں فریقین میں اعتماد بحال ہو رہا ہے۔المرکز اسلامی پشاور میں طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور رکن پروفیسر ابراہیم نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی، طالبان کمیٹی اور طالبان سیاسی شوری کے درمیان آج سات گھنٹے مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے ۔

حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹیوں میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ فریقین نے ایک دوسرے کو غور سے سنا۔ انشاء اللہ جلد قوم کو امن کی خوشخبری دیں گے۔ پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ملک میں امن کی بحالی ہمارا ایجنڈہ ہے۔

(جاری ہے)

قوم دعا کرے کہ جلد امن بحال ہو۔ مولانا سمیع الحق کا کہناتھا طالبان کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کے درمیان جلد ملاقات ہوگی۔

جس میں طالبان کی سیاسی شوری سے ہونے والی آئندہ ملاقات کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اس سے پہلے طالبان کے سیاسی شوریٰ اور مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ابتدائی دور میں اہم پیش رفت ہوئی ہے ۔اجلاس کے حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان نے حکومت کی تحویل میں 3 قیدیوں کے بدلے 9 قیدیوں کی رہائی کی یقین دہانی کی ہے طالبان کی طرف سے رہا کرانے والے قیدیوں میں حیدر علی گیلانی ، شہباز تاثیر ، وی سی اجمل خان کے نام شامل ہے جبکہ طالبان نے کمانڈر مولوی عمر ، کمانڈر مسلم خان اور تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولوی صوفی محمد کے رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔

سیز فائر میں توسیع کے مطالبے پر سیاسی شوریٰ نے موقف اختیار کی ہے کہ ہفتہ وار فوجی نقل وحرکت ہونے کے بعد توسیع کی جائے گی ۔ مذاکراتی دور کے دوران دونوں اطراف سے شرائط بھی پیش کئے گئے ۔مذاکراتی عمل کے حوالے سے تحریک طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر اُردو پوائنٹ کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ دونوں کمیٹیوں اور سیاسی شوریٰ میں ہونے والے مذاکراتی دور نہایت خوشگوار رہااور دونوں کمیٹیوں اور سیاسی شوریٰ مذاکراتی عمل ،قیدیوں کے تبادلہ اور سیز فائر پرمتفق ہو چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی اراکین ہمارے مہمان ہے اور ان کی ہر بات سننیکے لیے طالبان تیار ہے۔

مذاکراتی دور سے پہلے طالبان کے ڈپٹی امیر شیخ خالد حقانی نے حکومتی اور طالبان کے اراکین کی استقبال کی اور ان سے ملاقات بھی کی اور طالبان کی طرف سے کئے گئے اقدامات پر دونوں کمیٹیوں کو آگا ہ کیا اور انکو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کی اور بعد میں کمیٹیوں کی اراکین شمالی وزیرستان کے تحصیل شواہ کے علاقہ ڈنڈا کلے کے ایک مدرسے میں 5 گھنٹے تک تعویل مشاورت کی ۔

ذرائع مطابق اگر وزیر داخلہ کی طرف سے اہم اقدامات اٹھائے گئے تو آئندہ 24 گھنٹوں میں طالبان کی طرف سے اہم پیش رفت متوقع ہے جن کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے ۔خبر رساں ادارے کے مطابق حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی و شوریٰ کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات میں جنگ بندی میں توسیع اور غیر عسکری قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا گیا ہے جبکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ رابطوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، طالبان نے فوجی نقل و حرکت محدود کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ آسانی سے نقل و حرکت کر سکیں۔

ان مذاکرات کیلئے حکومتی کمیٹی کے ارکان پشاور سے بذریعہ ہیلی کاپٹر شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی کے ایک خفیہ مقام پہنچے، حکومتی کمیٹی کے ارکان نے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو فون کر کے طالبان شوری سے براہ راست مذاکرات کے آغاز کی اطلاع دی جس کے بعد دونوں کمیٹیوں کی طالبان شوری سے ملاقات ہوئی جو ممکنہ طور پر ایک دو روز تک جاری رہے گی۔

حکومتی کمیٹی میں حبیب اللہ خٹک، ارباب عارف، فواد حسن فواد،میجر ریٹائرڈ محمد عامر اور رستم شاہ مہمند شامل تھے جبکہ طالبان کی نامز د کردہ کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ کے علاوہ طالبان شوریٰ کی نمائندگی قاری شکیل، اعظم طارق، مولوی ذاکراور مولوی بشیرنے کی ۔ مذاکرات کے بعد طالبان تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ مذاکرات میں جنگ بندی میں توسیع اور غیر عسکری قیدیوں کورہا کرنے پر اتفا ق کیا گیا ہے ۔

بیان کے مطابق مذاکرات میں طالبان نے مطالبہ کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوج کی نقل و حرکت کو محدود کیا جائے تاکہ طالبان رہنما آسانی سے چل پھر سکیں تاہم اس حوالہ سے حکومت کی طرف سے تاحال کوئی بیان وغیرہ جاری نہیں کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میرانشاہ طالبان اور حکومت کمیٹی کے درمیان بدھ کی سہ پہر تین بجے سے شام پانچ بجے تک مذاکرات کا دوسرا دور ہوا مذاکرات میں جنگ بندی میں توسیع اور تبدیلیوں کے معاملے پر بات چیت کی گئی ۔

طالبان نے حکومتی کمیٹی سے مطالبہ کیا قیدیو ں کی رہائی کے بدلے ہمارے قیدی بھی رہا کئے جائیں طالبان نے یقین دلایا کہ جب تک مذارکات جاری رہیں گے جنگ بندی بھی برقرار رہے گی ۔ طالبان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ فوج کی ہفتہ وارنقل وحرکت کو بند ہونا چاہیے تاکہ ہم آزادانہ طور پر نقل وحرکت کرسکیں گے ۔ مذاکرات کے خاتمے کے بعد طالبان کمیٹی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئی حکومتی کمیٹی اب رپورٹ وزیر داخلہ چوہدری نثار کو پیش کرے گی جس کے بعد مزید مذاکرات کے بارے میں فیصلہ ہوگا کس طرح اور کہاں پر ہونگے ۔

ذرائع کے مطابق پہلی براہ راست ملاقات میں حکومت نے طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں توسیع کی بات کی اور کہاکہ امن مذاکرات کیلئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی کارروائیوں سے دریغ کیا جائے اور بات چیت کو آگے بڑھایا جائے جس پر حکومت کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس معاملے پر طالبان شوریٰ میں معاملہ اٹھایا جائیگا اور کوشش کی جائیگی کہ تمام مسائل مذاکرات سے حل ہوں۔

ذرائع کے مطابق ملاقات میں حال ہی میں سامنے آنے والے گروپ احرار الہند کا تذکرہ بھی آیا کہ اس طرح کے گروپ بات چیت کو سبوتاژ کررہے ہیں اس لئے انہیں کنٹرول کیا جائے ۔ ذرائع نے بتایاکہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی طالبان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر دھرایا گیا کہ انہیں رہا کیا جائے جس سے اعتماد کی فضاء قائم ہوگی اور بات چیت آگے بڑھ سکے گی۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک مرتبہ پھر اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے اور بامعنی مذاکرات کیلئے ہرممکن اقدام اٹھایا جارہاہے البتہ طالبان کو بھی شرپسندی کی کارروائیوں ترک کرنا ہوگا ۔ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو لمحہ بہ لمحہ کی صورتحال سے آگاہ کرتی رہی ۔

مذاکرات ایک دو روز تک مزید جاری رہ سکتے ہیں ۔ ادھر مذاکرات کے لئے روانگی سے قبل طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ دونوں کمیٹیاں طالبان شوریٰ سے خفیہ مقام پر ملاقات کریں گی، جنگ بندی پہلی ترجیح ہے، دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات کے لئے نکات تیار کر لئے ہیں، ملاقات میں دونوں کمیٹیوں کے نکات پر بات ہو گی۔ پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ہم سہولت کار ہیں، کوشش ہے طالبان قیادت اور حکومتی کمیٹی کو ایک دوسرے کے قریب لائیں، پوری قوم دعا کرے کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔

دوسری جانب مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ امن کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے کیونکہ مذاکرات کے ذریعے ہی امن قائم ہوسکتاہے طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ادھر دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی بھی مذاکرات پر اعتماد میں نہ لئے جانے پر نالاں ہے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہاہے کہ جس طرح دوست ممالک کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر آنے پر اعتماد میں نہیں لیاگیا اسی طرح حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جارہا اور مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جارہاہے قومی اسمبلی میں ایک بڑی اپوزیشن اور خیبرپختونخواہ کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا موقف اس معاملے پر الگ ہے اور فی الوقت تک چیئرمین تحریک انصاف عمران خان حکومت طالبان مذاکرات سے مطمئن نظر آرہے ہیں اور اس حوالے سے ان کی جماعت کی جانب سے کوئی سخت بیان یا موقف بھی سامنے نہیں آرہا جبکہ پی ٹی آئی کے اراکین بھی اس معاملے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ دینی جماعتوں میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (س)خود مذاکراتی عمل کا حصہ ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمن مذاکرات کے حامی ہیں البتہ جرگہ کی بجائے کمیٹیوں پر انہیں بھی تحفظات ہیں البتہ وہ صرف ”دعا“ پر ہی اکتفا کررہے ہیں، اہل تشیع کے قائد علامہ ساجد نقوی بھی مذاکرات کے حامی نظر آتے ہیں البتہ ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں اور اگر آئین کے تحت مذاکرات ہوں تو حمایت کرتے ہیں اسی طرح کا موقف جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر کی جانب سے سامنے آیاہے جبکہ مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل مسلسل مذاکرات کی مخالفت کررہی ہیں اور ان کا موقف ہے کہ طالبان پاکستانی عوام اور فوج کے قاتل ہیں اس لئے قاتلوں سے مذاکرات کی بجائے آپریشن کی راہ اختیار کی جائے۔

شمالی وزیرستان میں حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا ۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں تین ماہ کی توسیع کا اعلان متوقع ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی اور طالبان کمیٹی کے درمیان جنگ بندی میں توسیع اور غیر عسکری قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا گیا جنگ بندی کی اعلان کردہ مدت کے چار دن باقی رہ گئے ہیں ۔

طالبان رابطہ کار کمیٹی کے ساتھ حکومتی کمیٹی شمالی وزیرستان سے نامعلوم مقام پر پہنچی تو طالبان نے پہلا سوال حکومتی کمیٹی کے اختیارات سے متعلق کیا جس پر کمیٹی نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے رابطہ کیا تو چوہدری نثار نے کہا کہ آپ مکمل بااختیار ہیں طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں تین ماہ کی توسیع کا اعلان متوقع ہے۔ مذاکرات کمیٹیاں بدھ کی صبح پشاور سے روانہ ہوئی تھیں جن میں میجر ریٹائرڈ عامر ، رستم شاہ مہمند ، حبیب اللہ خٹک ، ارباب عارف اور فواد حسن شامل ہیں جبکہ رابطہ کار کمیٹی کے مولانا سمیع الحق ، پروفیسر ابراہیم اور یوسف شاہ بھی شامل ہیں دوسری طرف طالبان شوریٰ کی نمائندگی قاری شکیل ، اعظم طارق ، مولوی ذاکر اور مولوی بشیر نے کی ۔

طالبان مذاکراتی کمیٹی کے ارکان نے کہا ہے کہ برف پگھل چکی ہے،حکومت اور طالبان کو آمنے سامنے بٹھا دیااور دونوں فریقین نے تفصیل سے ایک دوسرے کو اپنے موٴقف سے آگاہ کیا ، دونوں فریق مذاکرات ضروری سمجھتے ہیں ، مذاکرات کے مثبت نتائج نکلیں گے اور قوم کو مایوسی نہیں ہوگی ،ایک دوروز میں دوبارہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور ہوگا، دس سال سے جاری بد امنی کے خاتمے کی امید ہو چلی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ قوم کو خوشخبری دیں گے۔

ان خیالات کا اظہار طالبان مذاکراتی کمیٹی چیئرمین مولانا سمیع الحق ، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ نے حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی دفعہ شمالی وزیر ستان میں براہ راست مذاکرات میں شرکت کے بعد پشاور پہنچنے پر جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر المرکز اسلامی میں ایک ہنگامی اور پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی کے ممبران پروفیسر محمد ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ کی تین مرتبہ شمالی وزیرستان کے دورے اور طالبان شوریٰ سے طویل مذاکرات کے نتیجے میں ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ حکومت اور طالبان کو آمنے سامنے بٹھا دیااور دونوں فریقین نے تفصیل سے ایک دوسرے کو اپنے موٴقف سے آگاہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ کہ دونوں فریق مذاکرات ضروری سمجھتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ تعالیٰ حکومت طالبان مذاکرات کے مثبت نتائج نکلیں گے اور قوم کو مایوسی نہیں ہوگی ۔ ایک دوروز میں دوبارہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور ہوگا۔ پروفیسر ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ دس سال سے جاری بد امنی کے خاتمے کی امید ہو چلی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پہلی کامیابی طالبان اور حکومت کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان تھا اور دوسری بڑی کامیابی طالبان اور حکومت کو براہ راست مذکرات کا آغاز تھااور انشاء اللہ تعالیٰ قوم کو خوشخبری دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا موجودہ امن مذاکرات میں انتہائی اہم کردار ہے اور مولانا سمیع الحق نے جس امن مشن کا آغاز کیاہے اس پر پوری قوم ان کی مشکور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان کے ایجنڈے میں سرفہرست امن کی بحالی ہے اور امن کی بحالی سے متعلق تمام امور مذاکرات میں زیر بحث آئے ہیں ۔ پریس کانفرنس میں صحافیوں کو سوالات کرنے سے مولانا یوسف شاہ نے شروع ہی سے منع کردیا تھا تاہم ایک صحافی نے جب مسلسل اصرار کرکے صرف جنگ بندی میں ممکنہ توسیع کے حوالے سے پوچھا تو مولانا سمیع الحق اور پروفیسر محمد ابراہیم خان نے جواب دیا کہ انشاء اللہ قوم کو اب خوشخبریاں ملیں گی۔

قبل ازیں طالبان کمیٹی کے ممبران مولانا سمیع الحق ، پروفیسر محمد ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے بعد نماز مغرب 7بجے پشاور ائیر پورٹ پر اترے جہاں سے وہ سیدھے جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر المرکز اسلامی پہنچے جہاں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے صوبائی ترجمان اسرار اللہ ایڈوکیٹ جماعت اسلامی کے دیگر رہنماوٴں اور کارکنوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔