حکومت کو مالا کنڈ سے لاپتہ 35افراد پیش کرنے کیلئے24گھنٹوں کی آخری مہلت ،وزیر اعظم نواز شریف ،وزیر اعلی، گورنر پختونخواہ پر توہین عدالت کی تلوار لٹکنے لگی ، صبر کا دامن چھوڑ چکے ،کشتیاں بھی جلا دیں، حکومت کو لاپتہ افراد کی ذرا برابر بھی پرواہ نہیں ہے، اب مثبت جواب نہ دیا گیا تو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، جسٹس جواد ایس خواجہ

بدھ 19 مارچ 2014 05:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19مارچ۔2014ء)سپریم کورٹ میں مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے 35 افراد اٹھائے جانے کے معاملے کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف ،وزیر اعلی خیبر پختونخواہ اور گورنر پختونخواہ توہین عدالت کی تلوار لٹکنے لگی ۔عدالت نے مذکورہ بالا لاپتہ افراد کو پیش کرنے کے لئے صرف24 گھنٹے کی قلیل اور آخری مہلت دیتے ہوئے اٹارنی جنرل پر واضح کر دیا ہے کہ اگر ہمیں مثبت جواب نہ دیا گیا تو مذکورہ بالا حکام سے وضاحت طلب کریں گے اور انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ صبر کا دامن چھوڑ چکے ،کشتیاں بھی جلا چکے ۔آئین و قانون پر عمل ہی اب ہمارآ آپشن ہے ۔اب تک چیف ایگزیکٹو پاکستان سمیت حکام کو نوٹس جاری نہیں کیا تھا کہ شاید حکومت کچھ کردے اور لاپتہ افراد بازیاب ہو جائیں ۔

(جاری ہے)

مگر لگتا ہے کہ حکومت کو لاپتہ افراد کی ذرا برابر بھی پرواہ نہیں ہے ۔وفاق اور صوبے کے جواب سے مطمئن نہیں۔

کمیشن پہ کمیشن بنا کر نوٹیفکیشن دینے سے لاپتہ افراد واپس نہیں آئیں گے ۔ہمیں لاپتہ افراد چاہئیں۔24 گھنٹے میں جواب دیں ۔جتنے کام سرکار کررہی ہے اس سے لوگوں کی اشک شوئی نہیں ہوتی ۔انہوں نے یہ ریمارکس گزشہ روز دیئے ہیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے منگل کے روز مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی ۔

اس دوران اٹارنی جنرل پاکستان سلمان اسلم بٹ، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ ،لطیف یوسفزئی ،ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان، آمنہ مسعود جنجوعہ اور یاسین شاہ لاپتہ کے بھائی محبت شاہ پیش ہوئے ۔جسٹس جواد نے اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ پراگریس آپ شو کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے لاپتہ کے لواحقین کے لئے فنڈز قائم کر دیا ہے۔100 روپے کرایہ اور500 روپے کھانے پینے کے لئے دیئے جائیں گے اور یہ فی کس خرچہ ہوگا۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اتنی رقم تو لوگوں کی اشک شوئی بھی نہیں ہوتی ۔یہ ہم نے 8 ماہ پہلے کہہ دیا تھا۔ ہم آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں آپ ہمیں یاسین شاہ کے حوالے سے بتائیں ہم اب تک صبر اس لئے کررہے تھے کہ آپ شاید کچھ کر دیں۔قانون سازی کا بھی انتظار کرتے رہے ہیں ۔اب ہم مزید کچھ نہیں کہیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن بنا تھا مگر سرداررضا نے ان کار کیا اب نیا کمیشن کام شروع کر چکا ہے اور وہ اس حوالے سے کم از کم وقت لیں گے ۔

کمیشن کی سربراہی جسٹس (ر) میاں محمد اجمل کریں گے۔انہوں نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی عدالت میں پیش کیا ۔اے جی نے مزید بتایا کہ یہ یک رکنی کمیشن ہے۔کمیشن کو کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی سفارشات جلد سے جلد پیش کر دیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کمیشن کام کرتا ہے یا نہیں ہمیں تو یاسین شاہ چاہیے۔ ہم چیف ایگزیکٹو آف پاکستان اور چیف ایگزیکٹو کے پی کے اور گورنر کے پی کے کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں اور ان سے جواب مانگ لیتے ہیں ۔

عدالت سے مذاق کیا جارہا ہے ہم ترلے منتوں پر اتر آئے ہیں ۔آپ نے درخواست وقت کی کردی اور ہم نے مسترد کر دی ۔یہ کمیشن بارے نوٹیفکیشن قابل قبلو نہیں ہے ۔پہلا نوٹیفکیشن جنوری2014 کو آیا اور اب مارچ2014 ء میں دوسرا آگیا ۔اے جی نے کہا کہ ہفتہ دس دن دے دیں پراگرس دکھائیں گے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں بندے چاہئیں،ہم محبت شاہ کے ساتھ کھڑے ہیں ،ہمیں ہر روز ایک نیا آرڈر دے دیا جاتا ہے ۔

اے جی نے مزید وقت کے لئے بار بار درخواست کی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ34 ویں سماعت ہو رہی ہے ۔میرا اپنا سگا بھائی ہوتا تو میں نجانے کیا کر لیتا۔آپ چھ سال اپنا کام کرتے رہیں ہم اپنا کام کریں گے ۔24 گھنٹوں میں وضاحت پیش کریں بصورت دیگر ہم وزیر اعظم،وزیراعلیٰ کے پی کے اور گورنر کے پی کے کو نوٹس جاری کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ہم سے کھیل کھیلا جارہا ہے ۔

ہم نے اپنی کشتیاں جلا دی ہیں ۔آرڈر میں لکھواتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چیف ایگزیکٹو پاکستان، چیف ایگزیکٹو کے پی کے اور گورنر سے جواب طلب کریں کہ انہوں نے اب تک ہمارے اتنے سارے احکامات پر عمل کیوں نہیں کیا مگر اے جی نے درخواست کی کہ مختصر وقت دے دیں وہ وفاقی حکومت سے بات کریں گے ۔کے پی کے حکومت بھی بدھ صبح9:30 بجے تک جواب عدالت میں داخل کریں۔عدالت نے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی اس پر زیادہ مہلت نہیں دی جائے گی ۔ہمارے پاس قانون سے ہٹ کر کوئی آپشن نہیں ۔