امن مذاکرات میں دونوں اطراف سے اہم پیش رفت ،طالبان کی شرائط پر رضا مندی، آئندہ 24 گھنٹوں میں اہم مرحلہ شروع ہونے کا امکان،طالبان کی تجاویز حکومت تک پہنچا دی ہیں ،قوم کو جلد امن کا تحفہ دیں گے ،پروفیسر ابراہیم،مذاکرات سبوتاژ کرنیوالے ہاتھ بہت زیادہ ہیں، طالبان احرارالہند کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں،حکومتی کمیٹی کی تجاویز کا انتظار ہے، ملاقات کیلئے جگہ کا تعین کیاجارہا ہے،رکن طالبان کمیٹی کی پریس کانفرنس

پیر 17 مارچ 2014 07:32

پشاور(رحمت اللہ شباب۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17مارچ۔2014ء)امن مذاکرات میں دونوں اطراف سے اہم پیش رفت ،شرائط پر رضا مندی، آیندہ 24 گھنٹوں میں اہم مرحلہ شروع ہونے کا امکان کا امکان ہے ۔ باخبر زرائع کے مطابق طالبان کمیٹی کے حالیہ دورہ وزیرستان کے دوران حکومت کی طرف سے طالبان کی سیاسی شوری کو 16 صفحات پر مشتمل 16 نقاط حوالے کئے گئے ۔جن کو سیاسی شوریٰ نے مرکزی شوریٰ کو بھجوائے تھے ۔

گزشتہ دن مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں 11 نقاط پر طالبان کے تمام گروپ متفق ہوچکے ہیں جبکہ پانچ نقاط پر اب بھی صلاح و مشورہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق جن نقاط پر مشاورت جاری ہے ان میں طالبان کا غیر مسلح ہونا، آئین کے تحت مذاکرات شامل تھے۔ دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کمیٹی کی طرح حکومتی کمیٹی سرگرم ہے اور طالبان کی طرف سے بھجوائی گئی شرطوں پر بات چیت کا عمل بھی جاری ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے زرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نے پاکستان کے 1966ء کے آئین میں کچھ آرٹیکل پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جن کی وجہ سے یہ مذاکرات کھٹائی میں پڑے تھے ۔تحفظات کرنے والیآرٹیکل میں سودی نظام، شراب خانوں کو قانونی لائسنس، چوری قتل اور دیگر جرائم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے تحفظات والے آرٹیکل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھجوا دیئے ہیں اور ان کو ہدیت کی ہے کہ وہ جمہوری آئین میں ان نقاط کی نشاندہی کردیں کہ وہ اسلامی نقطہ نظر سے درست نہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے نشاندہی کے بعد اس میں تبدیلی کی جائیگی۔

ذرائع نے بھی بتایا کہ گذشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے دوسری بیوی کے لیے پہلی بیوی کی شرط بھی اس کی ایک کڑی تھی۔طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ طالبان کی تجاویز حکومت تک پہنچا دی ہیں ،قوم کو جلد امن کا تحفہ دیں گے لیکن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والے ہاتھ بہت زیادہ ہیں۔ان خیالات کا اظہار اانہوں نے المرکز پشاور میں پشاور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ قوم امن کی خوشخبری سننے کے لئے بے بات ہے اور بہت جلد قوم کو امن کا تحفہ دیں گے لیکن حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ناکام بنانے میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومتی کمیٹی کی تجاویز کا انتظار ہے، جبکہ ملاقات کیلئے جگہ کا تعین کیاجارہا ہے۔پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ محسود کے علاقے میں کامیاب مذاکرات ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ طالبان احرارالہند کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ طالبان کو مذاکرات کے لئے میران شاہ میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر آنے میں دشواری کا سامنا ہے، محسود علاقوں میں مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں تباہی پھیلی، حکومت کو جذبہ خیر سگالی کے تحت بچوں اور خواتین قیدیوں کو رہا کردینا چاہیئے۔

پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ان کا طالبان سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے، طالبان مولانا سمیع الحق کو بھی کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن مولانا سمیع الحق دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بار بار سفر نہیں کر سکتے۔ حکومتی کمیٹی کی تجاویز کا انتظار ہے، طالبان شوری اور حکومتی کمیٹی کی ملاقات کے لیے جگہ کا تعین کیاجارہا ہے۔ پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان فائر بندی اور مذاکرات آرڈر آف دی ڈے بن رہا ہے، اسلام آباد کچہری میں ہونے والے حملے سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے، طالبان نے حملے کی مذمت بھی کی تھی، طالبان احرارالہند نامی تنظیم کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں۔

طالبان کمیٹی کے رکن کا کہنا تھا کہ طالبان شوری نے یقین دلایا ہے کہ حکومت کو مشکلات میں نہیں ڈالیں گے لیکن مذاکرات ناکام بنانے میں بہت سے خفیہ ہاتھ ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور طالبان براہ راست بات کرنا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔بعد ازاں طالبان مذاکراتی ٹیم کے رکن اور امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخواہ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ تحریک طالبان اور حکومت کے درمیان امن مذاکرات الحمداللہ کامیابی کی طرف گامزن ہیں،قوم پرامن رہے۔

طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے موزوں جگہ کا تعین کیا جارہا ہے،جگہ کے تعین پر کسی فریق کو کوئی اختلاف نہیں، موزوں جگہ کے تعین کے بعد ایک دو روز میں حکومت اور طالبان کے درمیان مشترکہ ملاقات ہونے کی توقع ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ پرو فیسر ابراھیم خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن کے قیام کے لیے طالبان اور حکومت کے درمیان امن مذاکرات دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں،دوسر ے مرحلہ میں اہم فیصلے ہونے کی توقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان مذاکراتی ٹیم حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان رابطہ کاری کا کام سرانجام دے رہی ہے۔طالبان مذاکراتی ٹیم کی طالبان شوری کے ساتھ دواہم ملاقاتیں ہوئیں جس پر ہم الحمداللہ پرامید ہیں۔انہوں نے کہا کہ طالبان اور حکومت کے مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی براہ راست ملاقات ایک دوروز میں ہونے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ ملاقات کے مقام کے بارے میں اب کچھ نہیں کہا جاسکتا ملاقات کی جگہ کا تعین دونوں فریقین کی رضا مندی سے کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب تک بارے میں ہم طالبان سے رابطے میں ہیں۔ ۔طالبان مذاکراتی ٹیم کے درسرے رکن مولانا یوسف شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا مولانا سمیع الحق کی وفاقی وزیر داخلہ اور حکومت نمائندوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔امن مذاکرات کے لیے دوکمیٹیوں کی مشترکہ ملاقات کی جگہ کے بارے میں چند تجاویز آئی ہیں جس پر مشاورتی عمل جارہی ہے۔جگہ کے تعین کے بعد ملاقات دو سے تین روز میں ہونے کی امید ہے۔انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گئے۔

متعلقہ عنوان :