بھارت کے ساتھ مذاکرات میں تمام امور پر بات چیت جاری ہے ،احسن اقبال ، امید ہے بھارت میں انتخابات کے بعد ایسی نئی حکومت ہو گی جو تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے پر امن انداز میں حل کرے گی، ہم اپنے تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں،تھر قحط سالی صوبائی حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہے ،تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو

جمعرات 13 مارچ 2014 08:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13مارچ۔ 2014ء) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات میں تمام امور پر بات چیت جاری ہے جس میں آبی مسائل‘ سیاچن ‘ کشمیر اور سرکریک سمیت تمام متنازعہ ایشوز شامل ہیں امید ہے کہ بھارت میں انتخابات کے بعد ایسی نئی حکومت ہو گی جو کہ تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے پر امن انداز میں حل کرے گی ہم اپنے تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔

بدھ کو یہاں نیشنل ایویلیویشن کیپیسٹی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے منعقدہ تقریب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تھر قحط سالی صوبائی حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہے سابق ناقص پالیسیوں کی وجہ سے حالات اس قدر پیچیدہ ہوگئے آج تھر میں جو صورتحال جاری ہے اگر وسائل کی بہتر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو کل آدھا ملک قحط سالی کا شکار ہوگا۔

(جاری ہے)

آبادی میں تیزرفتار اضافے کی وجہ سے ہم ملک پانی کی تشویشناک کمی والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں کرائسس منیجمنٹ سیل تھر نے صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے مالی امداد فراہم کررہا ہے۔ موجودہ حکومت جلد از جلد نئے آبی وسائل کے قیام پر توجہ دے رہی ہے۔ ماضی غفلت کے برعکس حکومت کی اولین ترجیح دیامر بھاشا ڈیم ہے جس کے بننے سے ملک کے آبی وسائل میں خاطر خواہ بہتری آئے گی یہ واحد منصوبہ ہے جس پر اس وقت تمام صوبوں کا اتفاق ہے حکومت اس حوالے سے رقم کی فراہمی اور زمین کی خریداری کا کام کررہی ہے جبکہ ماضی کی حکومتوں اور تین سابق وزیرائے اعظم نے سوائے نقاب کشائی اور زبانی دعوؤں کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔

غازی بروتھا ڈیم کی تعمیر میں بارہ سال لگے ہیں اگر ہم نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں دیر کی تو ملک مزید مسائل کا شکار ہوگا اور آبی وسائل میں مزید کمی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تاہم آبی وسائل میں تیز رفتار کمی واقعہ ہورہی ہے۔ اگر بہتر اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کا بیس سے تیس فیصد رقبہ قحط کا شکار ہوسکتا ہے۔

معیشت کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ معیشت کے تمام انڈیکیٹر بہتری کی طرف جارہے ہیں جو کہ باعث اطمینان ہے۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا معاہدہ تب ہی ہوا ہے جب ان کو ہماری حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ ملکی معیشت میں ایک نظم و ضبط قائم ہورہا ہے تاہم یہ ایک لمبا سفر ہے جس میں وقت لگے گا۔ پچھلے چودہ برس سے معیشت کی حالت ابتر رہی ہے تاہم 2018 ء تک ہم اس کو مضبوط معیشت میں ڈھالیں گے۔

چشمہ پاور پلانٹ 2014-15 ء میں مکمل کرلیا جائے گا۔ جبکہ کراچی میں کیونب پاور پلانٹ کی تعمیر پر بھی تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ جس کی تکمیل کے بعد 2200 میگاواٹ توانائی حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے 2047 ء تک چالیس ہزار میگاواٹ توانائی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں ایک ایک ڈالر کا احتساب ہوتا ہے لہذا رقوم کی ترقیاتی منصوبوں پر شفاف انداز اور بہتر استعمال ایک مشکل کام ہے۔

اگر کسی کو پروگرام میں باقاعدہ مقاصد کا تعین نہ کیا جائے تو اس کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر منصوبوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں ٹیلی کام اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کی فیڈ بیک اور منصوبوں کے احتساب میں مدد ملی ہے جس سے منصوبوں کی کارکردگی بہتر ہوگی ایک بہتر اور موثر احتسابی نظام منصوبوں کی بہتر ایویلیوایشن اور تکمیل میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے انہوں نے کہا کہ بجائے زبانی دعوؤں کے عملی اقدامات ترقیاتی منصوبوں کی بہتر تکمیل اور معیشت کی مضبوطی میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں لہذا زبانی دعوؤں کو چھوڑ کر عملی اقدامات پر زور دینا ہوگا۔