طالبان سے مذاکرات، پاک فوج کا حکومت سے مکمل تعاون لیکن حصہ نہیں بنے گی ،آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ ،حساس اداروں کا نمائندہ مذاکرات کا حصہ ہو سکتا ہے، مذاکرات کے دوان دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں تو بھرپور جواب دیا جائے گا، ذرائع ،کور کمانڈرز کانفرنس معمول کی ماہانہ میٹنگ تھی ، مختلف پیشہ ورانہ معاملات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ، ملک کی موجودہ داخلی اور خارجی سیکورٹی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا،آئی ایس پی آر،کوئی یہ توقع نہ کرے کہ فوج کسی مجرم یا قاتل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے گی،سینئر فوجی عہدیدار کی بی بی سی سے گفتگو

ہفتہ 8 مارچ 2014 02:46

راولپنڈی،لندن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مارچ۔2014ء)پاک فوج نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان کیساتھ حکومت کے براہ راست مذاکرات میں اگر کسی قسم کی معلومات درکار ہوں تو مکمل تعاون کیلئے تیا ر ہے لیکن مذاکرات کیلئے نمائندہ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیاہے،حساس اداروں کا نمائندہ مذاکرات کا حصہ ہو سکتا ہے، مذاکرات کے دوان دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق یہ بات جمعہ کو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز میں ہونیوالی 170ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں کہی گئی ۔آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس معمول کی ماہانہ میٹنگز کا حصہ تھی جس میں مختلف پیشہ ورانہ معاملات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ،شرکاء نے ملک کی موجودہ داخلی اور خارجی سیکورٹی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق پاک فوج نے طالبان کے ساتھ حکومت کے براہ راست مذاکرات کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ماضی میں فوج نے جتنے بھی مذاکرات کئے ان کے نتائج اچھے نہیں تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حساس اداروں کا نمائندہ مذاکرات کا حصہ ہو سکتا ہے تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے فوج کے نمائندے کی مذاکراتی کمیٹی میں شمولیت کے حوالے سے نہیں کہا گیا۔

ذرائع کے مطابق عسکری قیادت سمجھتی ہے کہ مذاکرات کرنا یا نہ کرنا حکومت کا فیصلہ ہے اور اسے ہی اس عمل کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئیے اور فوج اگر کسی قسم کی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے تو حکومت کے ساتھ مکمل تعاو ن کرے گی ،فوج کا کام دفاع ہے اس لئے فوج ان مذاکرات کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ کور کمانڈرز نے شمالی وزیر ستان میں حاصل ہونیوالے اہداف پر کا بھی جائزہ لیا اور اطمینان کا اظہار کیا گیا اور اس عزم کا اعاد ہ کیا گیا کہ اگر دہشت گردوں کی جانب سے مذاکرات کے دوان دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں تو بھرپور جواب دیا جائے گا ۔

دریں اثناء برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کو امن کے قیام کے لیے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شامل کرنے کے سوال پر پاکستانی میڈیا میں بحث عروج پر ہے لیکن اس موضوع پر فوجی اور سول قیادت کے مابین ابتدائی مشاورت بھی نہیں ہوئی ہے۔پاکستانی فوج کو کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں شامل کرنے کی تجویز اس کمیٹی کے ارکان نے پیش کی ہے جسے وزیراعظم نے اس تنظیم کے ساتھ امن مذاکرات کی ذمہ داری سونپی تھی۔

وزیراعظم کو یہ تجویز جمعرات کے روز پیش کی گئی تھی جس کے بعد وزیراعظم اور اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔راولپنڈی کے فوجی صدر دفاتر میں ہونے والی کور کمانڈر کے اس اجلاس کی کارروائی سے واقف ایک سینئر فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ فوج کسی بھی تجویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسی تجویز کا باضابطہ فورم پر موجود ہونا ضروری ہے۔

سینئر فوجی افسر نے بتایا کہ ’فوج کے اندر غیر رسمی انداز میں اس سارے معاملے پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ممکن ہے کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بات ہوئی ہو لیکن اس پر فیصلہ صرف اسی وقت لیا جائے گا جب کوئی تجویز باضابطہ طور پر پیش کی جائے گی۔اس افسر کے بقول فوجی حکام نے ماضی میں بھی شدت پسندوں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں لیکن اس وقت بھی اور اب بھی سب سے اہم سوال یہی ہوگا کہ جن لوگوں کے ساتھ فوج نے ایک ادارے کے طور پر بات کرنی ہے وہ کون ہیں۔

سینئر فوجی افسر نے کہا کہ کوئی یہ توقع نہ کرے کہ فوج کسی مجرم یا قاتل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے گی۔ادھر وزیراعظم سے ملاقات کے بعد سرکاری کمیٹی کے کوآرڈینٹر عرفان صدیقی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ کمیٹی نے متفقہ طور پر وزیراعظم کو تجویز پیش کی ہے کہ موجودہ مذاکراتی کمیٹی کو تحلیل کر کے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے اور فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہو۔

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کی رائے میں اس کمیٹی میں فوج کی نمائندگی بھی ہونی چاہئے۔تاہم قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں فوج کو شامل کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ مذاکرات اگر ناکام ہوئے تو حکومت اس کی ذمے داری فوج پر ڈال دے گی۔