پاکستانی ٹیم کے حامی کشمیری طلبہ پر سے بغاوت کا مقدمہ واپس لے لیا گیا ،بھارتی یونیورسٹی سے نکالے گئے کشمیری طلباء 3دن بعد بھوک و پیاس کی حالت میں گھر پہنچ گئے ، سفری اخراجات دیئے گئے نہ ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات ، بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ڈالا گیا ، بھارت میں کوئی طالبعلم محفوظ نہیں ، یونیورسٹیز انتظامیہ جب چاہتی ہے بہانہ بنا کر نکال دیتی ہے ، طلباء کا موقف

جمعہ 7 مارچ 2014 07:57

اتر پردیش(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7مارچ۔2014ء)بھارتی ریاست اتر پردیش کے مغربی شہر میرٹھ میں واقع ایک نجی یونیورسٹی کے کشمیری طلبہ پر عائد الزامات میں سے بغاوت کا الزام واپس لے لیا گیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے جن پر ان طلبہ کے خلاف بغاوت کے سنگین الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا جا سکے۔

میرٹھ کی سوامی وویک آنند سبھارتی یونیورسٹی کے 60 سے زائد طلبہ کو گذشتہ اتوار کو ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بھارت اور پاکستان کے میچ کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے، پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے، دیگر طلبہ سے بحث کرنے اور ہاسٹل کی املاک کو نقصان پہنچانے پر معطل کر دیا گیا تھا۔سینیئر پولیس اہلکار اومیار سنگھ نے جمعرات کی صبح بی بی سی ہندی کو بتایا تھا کہ سوامی وویک آنند سبھارتی یونیورسٹی کے رجسٹرار پی گرگ کے خط پر بغاوت، مذہب کی بنیاد پر تعصب کو فروغ دینے اور نقب زنی کے الزامات کے تحت نامعلوم طالب علموں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

پولیس سپرنٹینڈنٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہی مزید کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کی معطلی میں انتظامیہ اور پولیس کا کوئی کردار نہیں تھا۔جمعرات کی شام برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے میرٹھ کے ضلعی مجسٹریٹ پنکج یادو نے بتایا کہ پولیس کی تفتیش میں تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے میں طالب علموں کے خلاف کسی طرح کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا اس لیے پولیس مقدمے سے یہ الزام حذف کر دے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالب علموں کے خلاف دوسرے معاملات میں مقدمہ جاری رہے گا۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر محفوظ احمد نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے اس واقعے کے دن خط لکھ کر اتر پردیش حکومت کے اعلیٰ حکام کو پورے معاملے سمیت طالب علموں کو معطل کرنے کی بھی اطلاع دی تھی اور اسی خط کو بنیاد بنا کر پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ ’کشمیری طالب علموں کے خلاف غداری کا معاملہ ایک ناقابل قبول اور سخت سزا ہے جو ان کا مستقبل ختم کر دے گی۔ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ صورتحال کو کنٹرول میں کرنے کے لیے یونیورسٹی نے جو ضروری سمجھا، اس نے وہ کیا لیکن یوپی حکومت کی یہ کارروائی ناپسندیدہ ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔

عمر عبد اللہ نے ٹوئٹر پر یہ بھی لکھا تھا کہ انھوں نے اتر پردیش کے وزیراعلی اکھلیش یادو سے بات کر کے غداری کا مقدمہ خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ معاملے کا جائزہ لیں گے۔میرٹھ کے ضلع افسر پنکج یادو نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ معاملے کی تفتیش اضافی سٹی مجسٹریٹ کو سونپی گئی ہے جو 15 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔

ابتدائی طور پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر منظور احمد کا کہنا تھا کہ معطلی کا فیصلہ ’احتیاطی تدابیر‘ کے طور پر کیا گیا۔کشمیر سے برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے ریاض مسرور نے بتایا کہ بانڈی پورہ کے بلال احمد اس یونیورسٹی میں بی ٹیک کی ڈگری کے لیے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’سب لوگ باہر ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ آخری اووروں کے دوران جب ہوسٹل وارڈن نے ہندو طلبہ کی شرارتوں کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے ٹی وی بند کرنا چاہا، لیکن طلبہ نے ٹی وی پر ہی قبضہ جما لیا۔

بعد میں انہوں نے کشمیریوں پر کْرسیاں پھینکی، گالیاں دیں اور ہمیں پاکستانی دہشت گرد کہا۔ لیکن ہمارے سینیئرز ہمیں ضبط سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔بلال کا کہنا ہے کہ ہندو طلبہ رات بھر ہوسٹل پر پتھراوٴ کرتے رہے، اور دوسرے روز حکام نے 60 سے زیادہ کشمیری طلبہ کو تین روز تک یونیورسٹی سے معطل کیے جانے کا نوٹس دے دیا۔اکثر طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کی تحویل میں نئی دلّی کے ریلوے سٹیشن پہنچایا گیا اور سفر کے خرچ کے لیے اصرار کے باوجود کوئی پیسے نہیں دیے گئے۔

دلّی میں مقیم بعض دوستوں کی مدد سے وہ جموں کے لیے ٹرین پکڑ سکے، لیکن وہاں سے انہیں سرینگر پہنچانے کے لیے ایک سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے ان کی مدد کی ہے۔ادھربھارتی یونیورسٹی سے نکالے گئے کشمیری طلبا بھوک و پیاس کی حالت میں گھر پہنچ گئے ، سفری اخراجات دیئے گئے نہ ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات ، بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ڈالا گیا ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کی سوامی وویکا نند یونیورسٹی سے نکالے گئے طلباء گزشتہ روز اپنے گھروں کو پہنچے تو ان کی حالت غیر تھی ۔ طلباء کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشیا کپ کے میچ کے اختتام پر صرف تالیاں بجانے کی پاداش میں یونیورسٹی انتظامیہ نے ہوسٹل سے نکال دیا اور پولیس کی بھاری نفری کی مدد سے جانوروں کی طرح گاڑیوں میں ٹھونس کر روانہ کیا گیا ہمارے پاس واپسی کے اخراجات تھے نہ کھانے پینے کا بندوبست تین دن تک مسلسل بھوکے پیاسے رہے ۔ طلباء نے کہا کہ بھارت میں زیر تعلیم کوئی بھی طالبعلم محفوظ نہیں ہے یونیورسٹیز کی انتظامیہ جب چاہتی ہے بہانے بنا کر طلبہ کو نکال دیتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :