جج رفاقت اعوان اپنے ہی گارڈ کی گولی کا نشانہ بنے جس کا اعتراف خود گارڈ نے کرلیا ہے، چوہدری نثار کا انکشاف ،2چشم دید گواہ بھی ہیں،افسوس سانحہ کچہری پر اپوزیشن نے متفق ہونے کی بجائے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، سانحہ میں کوتاہی برتنے والوں کیخلاف سخت کارروائی ہوگی، ملکی سلامتی کیلئے داخلی سلامتی پالیسی انتہائی اہمیت کا حامل دستاویز ہے،دہشتگردی کے خلاف لڑائی لمبی ہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے،تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں،ناراض گروپوں سے مذاکرات کیلئے ایک اور کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں،اگلے ہفتے مذاکرات شروع ہوجائیں گے،نئی کمیٹی سرکاری ہوگی،کے پی کے کو بھی اس میں نمائندگی دیں گے ، وزیر داخلہ کا اسمبلی میں قومی داخلی پالیسی پر بحث کوسمیٹتے ہوئے اظہار خیال

جمعہ 7 مارچ 2014 07:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7مارچ۔2014ء)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعرات کو قومی اسمبلی اجلاس میں قومی داخلی پالیسی پر بحث کوسمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے داخلی سلامتی پالیسی انتہائی اہمیت کا حامل دستاویز ہے، کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف لڑائی لمبی ہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے،تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں،قومی داخلی پالیسی دستاویز حرف آخر نہیں ہے،اس پر مزید تجاویز دی جائیں،سیاستدانوں،قوم اور تمام اداروں کے اتفاق سے دہشتگردی پر قابو پاسکتے ہیں،سیکورٹی کے معاملے پر سیاست نہ کی جائے یہ ملک کی بقاء و سالمیت کا مسئلہ ہے،صوبوں،سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سے ملکر ملک کو اس گھمبیر صورتحال سے نکالیں گے،تیزی سے اس پالیسی پر عملدرآمد کرائیں گے،اس کے اثرات دنوں میں آئیں گے،دہشتگردی میں پاکستان کا دنیا میں پہلا نمبر ہے اور اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے،طالبان سے ڈر کر مذاکرات نہیں کر رہے ہیں،یہ آل پارٹیز کانفرنس کا فیصلہ تھا،قوم کا تحفظ ہر قیمت پر کریں گے ،جو گروپ ملک کے دشمن ہیں ان کے خلاف ایکشن لیں گے،ناراض گروپوں سے مذاکرات کر رہے ہیں،ایک اور کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں،اگلے ہفتے مذاکرات شروع ہوجائیں گے،نئی کمیٹی سرکاری ہوگی،کے پی کے کو بھی اس میں نمائندگی دیں گے،سانحہ کچہری گزشتہ سال میں پہلا دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہے،سانحہ میں کوتاہی برتنے والوں کیخلاف سخت کارروائی ہوگی،واقعہ میں ملوث مجرموں کے قریب پہنچ گئے،کیفرکردار تک پہنچائیں گے،12شہداء سمیت تمام شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی،جج رفاقت اعوان اپنے ہی گارڈ کی گولی کا نشانہ بنے جس کا اعتراف خود گارڈ نے کرلیا ہے،2چشم دید گواہ بھی ہیں،افسوس سانحہ کچہری پر اپوزیشن نے متفق ہونے کی بجائے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا،امریکہ وبرطانیہ سمیت دیگر ممالک میں دہشتگردی کے معاملات پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہوتی ہیں،افسوس یہاں ایسا نہیں ہے،قومی داخلی سیکورٹی پالیسی پر تنقید اور مثبت تجاویز کا خیرمقدم اور اپوزیشن واتحادی جماعتوں کا مشکور ہوں،پارلیمنٹ کو ہر معاملے پر اعتماد میں لیا جائے گا،داخلی سلامتی پالیسی ہے صوبوں کو اعتماد میں لے کرتمام وزراء اعلیٰ سے ملاقات کرونگا،اسلام آباد میں سیف سٹی بنانے کیلئے اپنی توانیاں بروئے کار لار ہے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک گزشتہ13سال سے خارجی اور داخلی خطرات سے دوچار ہے،انہوں نے کہا کہ پالیسی پر تنقید اور کمیشن پیش کرنے پر اپوزیشن حکومت دونوں کا مشکور ہوں جنہوں نے مثبت تجاویز دیں،ان پر بھی شکر گزار ہوں،اس موقع پر انہوں نے اسلام آباد سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خطے اور مسلم ممالک میں سب سے زیادہ دہشتگردی کی وارداتیں پاکستان میں ہوئیں لیکن اس وقت پوری دنیا میں دہشتگردی کی کارروائیاں عروج پر ہیں،چین اور امریکہ سمیت بڑے ممالک بھی اس لعنت سے دوچار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی بیرونی ممالک میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے امریکہ برطانیہ سمیت تمام ممالک میں حکومت اور اپوزیشن متفق ہوگئیں لیکن افسوس یہاں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ1سال میں سانحہ کچہری اسلام آباد سب سے بڑا واقعہ تھا اس سے پہلے ایک واقعہ بہارہ کہو میں ہوا جن کے تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔انہوں نے کہا کہ سابق دور میں ہم نے دہشتگردی کے معاملے پر سیاست نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر اعلیٰ عدلیہ نے جو ڈائریکشن دی وہ بہت مثبت پیغام ہے جبکہ وکلاء اور عدلیہ نے پیغام دیا کہ دہشتگردوں کیخلاف ہم اکٹھے ہیں،کاش یہ پیغام اپوزیشن کی طرف سے بھی آتا۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو سیکورٹی ایجنسی میں خامیاں نظر آتی ہیں مگر گزشتہ6یا8سال میں کیا کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ9/11میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا مگر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کہا گیا ہو کہ امریکہ غیر محفوظ ہوچکا ہے،مگر افسوس یہاں تقاریر کی جارہی ہیں ،کیاوہ لوگ چشم دید گواہ ہیں جو زمین وآسمان کی قلابیں چلا رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ تھریٹ ضرور ہیں ہم کمزور نہیں ہیں،دہشتگردوں کے سامنے ریاست کو کمزور کرنے کی بات کرنے سے گریز کیا جائے،انہوں نے کہا کہ سابق دور میں میریٹ ہوٹل،کاکول اکیڈمی سمیت بڑے بڑے واقعات ہوئے مگر کبھی نہیں کہا کہ پاکستان غیر محفوظ ہوگیا ہے،ہم نے اپوزیشن میں تمام باتیں بند کمرہ اجلاس میں کیں،انہوں نے کہا کہ سانحہ کچہری میں کوتاہیاں ہوئی ہیں اس کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہوگا،انہوں نے کہا کہ بریکنگ نیوز اور ٹکرز کی نذر پوری سیاست کردی گئی ہے،انہوں نے کہا کہ سانحہ کچہری کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی گئیں اور حقائق کو مسخ کردیاگیا اور بغیر تصدیق کی باتیں پھیلائی گئیں،انہوں نے کہا کہ شہید جج،گارڈ،محرر اور ریڈر ریکارڈ روم میں چلے گئے اور اس اثناء سے ایک خودکش دھماکہ ہوگیا اور اس سے گھبراکر گارڈ کی پستول سے فائر ہوگیا اور وہ گولیاں شہید جج رفاقت اعوان کو لگ گئیں اور شہید جج اپنے ہی گارڈ کے ہاتھوں شہید ہوگئے،اس بات کا اعتراف خود اس گارڈ نے کرلیا ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت کو کچھ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کون لوگ تھے اور ان کا ٹارگٹ کیا تھا،انہوں نے کہا کہ ایک جج ضرور ٹارگٹ تھا مگر اس روز وہ جج صاحب کورٹ میں نہیں تھے،انہوں نے کہا کہ فی الوقت100فیصد اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے لیکن جیسے ہی معلوم ہوا اس ایوان کو آگاہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ان 12شہیدوں کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔وزیرداخلہ نے حکومت طالبان مذاکرات پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کو اس لئے آگے بڑھایا جارہا ہے کہ مذاکرات تمام آل پارٹیز کانفرنس میں شامل جماعتوں نے ترجیح دی تھی۔انہوں نے کہا کہ سابق دور میں ن لیگ کے دباؤ پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی اور اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مذاکرات شروع کئے مگر افسوس4ہفتوں بعد ہی فوجی آپریشن سوات میں شروع کردیا مگر پھر بھی حکومت کا ساتھ دیا،انہوں نے کہا کہ 5ماہ مذاکرات کا عمل جاری رہا مگر دوسری جانب سے دہشتگردی کی وارداتیں ہوئیں تو پھر حکومت نے انڈرسٹیڈنگ کے ذریعے جواب دیااور اب بھی یہی پالیسی ہے کیوں کہ جو بات نہیں کرے گا اس کے ساتھ اس زبان میں بات کی جائے گی لیکن جوبات کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ بات کریں گے،انہوں نے کہا کہ فاٹا میں کچھ گروپ ہیں جو ملک دشمن ہیں اور بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں لیکن کچھ گروپ ایسے ہیں جو مشرف کی پالیسیوں سے نالاں ہیں لیکن پاکستان کے دشمن نہیں ہیں،انہوں نے کہا کہ حکومت مذاکرات کے لئے ایک اور مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے رہی ہے جو بنیادی طور پر سرکاری کمیٹی ہوگی اور اس میں کے پی کے کو بھی نمائندگی دی جارہی ہے،دوسری دونوں کمیٹیاں اپنا کام جاری رکھیں گی،انہوں نے کہا کہ آئین وقانون کے ماورائی یا کمزور ایجنڈے پر مذاکرات نہیں کریں گے اور ڈائریکٹ نیگوسیشن ہوگی اور اگلے ہفتے سے مذاکراتی عمل شروع ہوجائے گا،انہوں نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی ڈاکومنٹری پالیسی ہے جنگ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں لڑ رہے بلکہ پورا ملک لڑ رہا ہے،اس میں انٹیلی جنس ایجنسی شےئرنگ ضروری ہے،انٹیلی جنس ایجنسی26ہیں اور دوسری7ہیں جس میں پولیس اور کوسٹ گارڈ بھی شامل ہیں،انہوں نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے ایک سال لگے گا اور یہ حرف آخر نہیں ہے جن ارکان نے تجاویز دی ہیں،ان کو ضرور شامل کریں گے،انہوں نے کہا کہ کاؤنٹر ٹیررازم فورس تشکیل دیں گے اور اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت کی جائے گی اور جلد وزیراعلیٰ سے ملاقات کریں گے،انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے 13سال میں کچھ نہیں کیا ہم نے4ماہ میں تیار کیا،انہوں نے کہا کہ نیکٹا اور نیشنل کرائسس سیل کو ضم کیا جارہا ہے لیکن کسی بھی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی تقریروں سے نہیں رکے گی،فوج اور سول ادارے ملکر انٹیلی جنس شےئرنگ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ سندھ میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں تو تحریک التواء نہیں آتی جبکہ وفاق اور پنجاب میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں تو تحریک التواء آجاتی ہے،سیکورٹی کے معاملات پر سندھ کے ساتھ مشاورت کی جاتی ہے جو کہا اچھی بات ہے،انہوں نے کہا کہ پنجاب کے ساتھ جو رویہ روا رکھیں گے وہی دیگر صوبوں کے ساتھ ہوگا،سیاسی بنیاد پر ایوان کی کارروائی نہیں چلنی چاہئے۔

پولیس اہلکاروں کی ٹریننگ کی جائے حکومت کوشش کر رہی ہے،سافٹ ٹارگٹڈ کو بھی روکیں گے پچھلے8ماہ میں انٹیلی جنس کی مدد سے بہارہ کہو میں نیٹ ورک پکڑا ۔انہوں نے کہا کہ عوام کو بھی متحرک کرنا ہوگا،انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹ پر پولیس اہلکاروں کو سیکورٹی چیک کریں کیونکہ اسلام آباد میں ہر شخص وی آئی پی ہے،انہوں نے کہا کہ قوم کے تعاون کے بعیر ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے،حکومت پاکستان کی بقاء کی خاطر اقدامات اٹھا رہی ہے،انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں2لاکھ لوگ بغیر شناخت کے رہ رہے ہیں،24کچی آبادیوں میں رہنے والے84 ہزار لوگوں کی رجسٹریشن کی ہے،انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں52ہزار گھر ہیں ان کی جانچ پڑتال جاری ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیکورٹی ذاتی رنجشوں کی نظر نہیں ہو نے دینگے،ایوان کی رہنمائی اور صبر چاہئے۔