قومی اسمبلی کے ارکان کا ملک میں امن و استحکام کیلئے قومی سلامتی پالیسی کو جلد از جلد حتمی شکل دینے اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ،فوج کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے طالبان سے مذاکرات میں نہ الجھایا جائے، اسلام آباد واقعہ پر وزیر داخلہ کو اخلاقاً استعفیٰ دے دینا چاہیے، یوسف تالپور، روس کے ٹوٹنے کے بعد طالبان کو بے روزگار چھوڑ دیا گیااور اسلام کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر دی گئی،مولاناشیرانی،معلوم ہوتا ہے کہ مشترکہ انٹیلی جنس شیئرنگ ابھی نہیں بنی،شیریں مزاری،مذاکرات کے حامی ہیں لیکن بامقصد ہونے چاہئیں،طالبان نے اسلام کو بدنام کیا ان کی شریعت کو نہیں مانتے،اے این پی،حکمران مسائل کو سنجیدہ نہیں لے رہے ،پاکستان چلنے اور جلنے کے دروازے پر کھڑا ہے،محمود خان اچکزئی

جمعرات 6 مارچ 2014 08:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مارچ۔2014ء)قومی اسمبلی میں اپوزیشن واتحادی جماعتوں کا طالبان سے مذاکرات اور آپریشن پر ملا جلا رد عمل ،پیپلز پارٹی نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسلام آباد کچہری کے واقعہ ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔وزیر داخلہ بتائیں کس طرح اسلام آباد محفوظ ہے ۔کل پارلیمنٹ ،ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس پر بھی حملے ہوسکتے ہیں۔

33 ایجنسیاں ایک سیشن جج کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو ملک کو کیا بچائے گی ۔فوج کے خلاف نہیں لیکن آمروں کی وجہ سے ملک تباہ ہوا۔ جے یو آئی (ف) کے مولانا شیرانی ننے کہا کہ روس کو توڑنے کے بعد طالبان کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ بتایا جائے کہ کس کی خواہش پر ملک کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔تحریک انصاف کی شیری مزاری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو عسکری ونگز سے پاک کیا جائے ۔

(جاری ہے)

دینی مدارس پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔ ایم کیو ایم نے موقف اختیار کیا کہ حکومت مذاکرات کا کھیل ختم کرے۔طالبان کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ اسلام آباد کے واقعہ نے وزیر داخلہ کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے ۔جماعت اسلامی نے اعتراض کیا کہ داخلہ پالیسی میں بہت نقائص ہیں ۔محموداچکزئی نے کہا کہ ملک کو خطرناک مسائل درپیش ہیں فورا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔

اے این پی نے حکومتی پالیسی کی حمات کرتے ہوئے کہا کہ اگر چھوٹے صوبوں کو حقوق دیئے جائیں تو مسائل حل ہو جائیں گے ۔مذاکرات کے حامی ہیں لیکن بامقصد ہونے چاہئیں ۔طالبان نے اسلام کو بدنام کیا ان کی شریعت کو نہیں مانتے۔بدھ کے روز قومی اسمبلی کے ارکان نے ملک میں امن و استحکام کیلئے قومی سلامتی پالیسی کو جلد از جلد حتمی شکل دینے اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے اور نواب یوسف تالپور نے کہا ہے کہ فوج کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں نہ الجھایا جائے۔

اسلام آباد کا واقعہ ملک کی 33 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس پر وزیر داخلہ کو اخلاقاً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد طالبان کو بے روزگار چھوڑ دیا گیا بلکہ ان کے خاتمے کے لئے مغربی طاقتیں اکٹھی ہوگئیں اور اسلام کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر دی ۔شیریں مزاری نے کہا کہ اسلام آباد کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مشترکہ انٹیلی جنس شیرنگ ابھی نہیں بنی اور گزشتہ اسلام آباد کچہری کا واقعہ سکیورٹی خامی ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی داخلی پالیسی پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نواب محمد یوسف تالپور نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی بھی آگئی جس کے بعد اسلام آباد میں واقعہ قابل افسوس ہے ۔قومی اسمبلی کی داخلہ کمیٹی میں ایک ورکنگ پیپر دیا گیا جس میں کہاگیا پورا ملک دارالحکومت سمیت دہشت گردی کے حملے ہو سکتے ہیں جس پر وزیر داخلہ نے ان تمام رپورٹس کی سخت تردید کی ۔

انہوں نے کہا کہ فوج کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں نہ الجھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کا واقعہ ملک کی 33 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس پر وزیر داخلہ کو اخلاقاً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ دوسرے ممالک میں ٹرین کا حادثہ ہو تو وزیر مستعفی ہو جاتے ہیں لیکن یہاں پر ناکامی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی دور حکومت میں 66600 لوگوں کو روزگار دیا ہے اور اب وزیر اعظم انہیں نوکری سے نکال ر ہے ہیں۔اس کی کاپی ہائی کمان کو بھی بھیجی ہے جو کہ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص پارلیمانی لاجز کو بدنام کرتا ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جے یوا ٓئی (ف) کے رکن قومی اسمبلی مولانا محمدخان شیرانی نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا کردار اور پانچ باتیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔

انٹیلی جنس ادارے اورقومی سلامتی پالیسی بھی شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد طالبان کو بے روزگار چھوڑ دیا گیا بلکہ ان کے خاتمے کے لئے مغربی طاقتیں اکٹھی ہوگئیں اور اسلام کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر دی ۔ 9/11 کے بعد مغربی دنیا نے تہذیبی جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں پاکستان کی قربانیوں پر صرف امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ ملا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کی خواہش یا مجبوری کے عالم میں ملک کو اگر توڑنا ہے تو اس سے معصوم لوگوں کا خون نہ بہایا جائے ۔ہم بہت خطرناک راستے پر چل رہے ہیں ۔تحریک انصاف کی رکن اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ اسلام آباد کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مشترکہ انٹیلی جنس شیئرنگ ابھی نہیں بنی اور گزشتہ اسلام آباد کچہری کا واقعہ سکیورٹی خامی ہے۔ پاکستان میں لانگ ٹرم پالیسی بنائی جائے ۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔دہشت گردی میں ملوث جماعتوں پر پابندی ہونی چاہیے اور دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پنجاب میں موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ۔تحریک انصاف کی دہشت گردی کے حوالے سے سفارشات پر عمل کیا جاتا تو امن ممکن ہو سکتا ہے ۔حکومت ملازمین پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔قومی داخلی پالیسی جامع بنائی جائے ۔

رکن اسمبلی کرنل (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ پاکستان کا دہشت گردی کی جنگ میں 80 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے اور آئین کے دائرہ میں رہیں گے۔طالبان سے مذاکرات کئے جائیں اور اس میں پاکستان کی یوتھ کو بھی شامل کیا جائے ۔حکومت نے فوج کو اعتماد میں لیکر طالبان کے حوالے سے فیصلے کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں مواصلات کے نظام کو کنٹرول کرنا پڑے گا ۔

بائیو میٹرک نظام کے تحت موبائل کا اجراء کیا جائے اس کے بغییر چلنے والی موبائل سمز کی روک تھام کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی تمام ایجنسیاں اٹنیلی جنس کی شیرنگ کریں گی اور رپیڈ فورس تشکیل دی جارہی ہے ان کی ٹریننگ ہونا ضروری ہے ۔ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی سلمان بلوچ نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی کو حتمی شکل دی جائے ۔ایک طرف اس پر بحث کی جاری ہے تو دوسری طرف ملک میں دہشت گردی کے حملے جاری ہیں ۔

حکومت اور طالبان مذاکرات کا کھیل ختم کریں ۔یہ کھیل زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد واقعہ وزیر داخلہ کے بیان کی نفی ہے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے ۔طالبان دہشت گرد کیا چاہتے ہیں ۔ پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں،آخر یہ دہشت گرد کیا چاہتے ہیں ۔مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی دانیال عزیز نے کہا کہ بلوچستان میں رائج ایکٹ میں شراب خانے میں پولیس آفیسر چیک کریں گے۔

اس ایکٹ میں سی سی پی کا عہدہ ہی نہیں ہے ۔1861 کے ایکٹ میں سی سی پی کا حوالہ ہی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پولیس آرڈر2002 صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں رائج ہے ۔بغیر کسی قانون وقواعد کے کام کئے جارہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سکندر کے واقعہ کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہیں آئی جبکہ اسلام آباد میں دوسرا واقعہ ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن سر پر ہیں لیکن مقامی حکومتیں نہیں بنیں۔

ملک کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے مقامی حکومتوں کا قیام کیا جائے۔ جماعت اسلامی رکن اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ قبائلی علاقوں کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں شامل ہوں اور ان لوگوں کو پولیس میں بھی بھرتی کی جائے اور سفارش کلچر کا خاتمہ ہوجائے۔ پختونخواہ میں نیب کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان کے مسائل کو وقت کے تقاضا کے مطابق سنجیدہ نہیں لے رہے پاکستان چلنے اور جلنے کے دروازے پر کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل خطرناک ہیں جلد مشترکہ اجلاس بلائے ورنہ قوم معاف نہیں کرے گی ملک برباد ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں آئین کا تحفظ کرنے کا خلف اٹھایا ہے سیاسی لوگوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے جو اس آئین کو پامال کرتا ہے انہیں پروٹوکول ملتا ہے ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی پرویز مشرف نے دوسرے وزیراعظم کو باہر نکالا اور جلا وطن کردیا انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماء اخلاقی حمایت کرنے کے لئے پرویز مشرف کے خلاف سپریم کورٹ نہیں جاتا آئین کی وجہ سے ہم سب متحد ہیں اس کو بدلنے کی ب اتیں ہورہی ہیں اور اس کو چھیننے کی کوشش ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ آئین سے آرٹیکل چھ کے نکالنے کی باتیں ہرہی ہیں آئین کے تحفظ کے لئے اکتھے ہونا پڑے گا اگر اکٹھے نہ ہوئے تو ملک تباہ ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ لیگ آف نیشن تھی تو ساٹھ ممالک تھے جب اقوام متحدہ بننے کے بعد 254 ممالک ہوچکے ہیں ماضی کو بھول جائیں اور پاکستان کو انصاف پر چلانا ہے پارلیمنٹ کو بااختیار بنانا ہے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹرین بگڑے ہوئے لوگ ہیں آئین کو سپریم ماننا ہے جو آئین کے خلاف اکسائے ان کے خلاف لڑیں انہوں نے کہا کہ ملک میں انصاف قائم کریں اس کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا۔

سندھ ‘ بلوچ‘ صوبہ خیبرپختونخواہ کے وسائل پر ان کے لوگوں کا حق ہے انہوں نے کہا کہ قومی زبانوں کو ان کی زبانیں دیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہمسایہ ممالک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جائیں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بین الاقوامی گارنٹی چاہتا ہے پاکستان آزاد ملک تصور کرے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حق میں ہیں فاٹا کے لوگوں کو پیغام دینا ہوگا کہ یہ علاقہ ان کا ہے فاٹا سے ایف سی آر کاخاتمہ کیا جائے یا پھر ساری ایجنسیوں کا صوبہ بنادیں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان ایک صف میں کھڑے نہیں ہوں گے تب فوجی آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتے انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ آرمی کو ختم کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپ سے کہنا ہوگا کہ ہ میں آپ کی زکواة نہیں چاہیے اور اس کی امداد جمہوریت سے وابستہ کریں غیر جمہوری لوگوں کی حمایت نہ کرے انہوں نے کہا کہ اگر چین ‘ بھارت‘ ایران ‘ افغانستان اور پاکستان اکٹھے ہوجائیں تو چین اور جاپان بھی ہماری حمایت کرے گا عوامی نیشبنل پارتی کے رکن اسمبلی حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ اسلام آباد واقعہ میں سکیورتی ادارے کہاں تھے دہشت گرد کارروائی کے بعد کہاں چلے گئے وزارت داخلہ بتائے ۔

حکومت نے مذاکرات کرکے اچھی حکمت عملی اختیار کی جبکہ پیپلزپارٹی نے ایسا نہیں کیا نہ ہی مذاکرات کئے اور نہ ہی آپریشن کیا انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی جنگ لڑی ایجنسیوں نے الیکشن کو انجرڈ کیا اور ہماری پارتی کو غدار کہا گیا لیکن پاکستان کے حامی ہیں پاکستان کو اقتدار کیلئے توڑا دنیا میں پہلا ملک مذہب کے نام پر بنا ہے اور اسلام آسان مذہب ہے انہوں نے کہا کہ طالبان کو مسلمان نہیں جانتے کیونکہ وہ ناحق لوگوں کا خون کرتے ہیں ہم اپنے آئین کو مانتے ہیں ڈنڈا بردار شریعت کو نہیں مانتے حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ہوگی تو تین صوبے مل کر پنجاب کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتے پھر بھی ہم جمہوریت کے حامی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا نے بھی اتنا ظلم نہیں کیا جتنا ظلم طالبان نے کیا ہے طالبان نے اسلام کو بدنام کیا۔ پاکستان جمہوریت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی عبدالستار بچانی نے کہا کہ وزیر داخلہ نے کہا کہ اسلام آباد محفوظ ہے ان کے بیان کے بعد اسلام آباد پر حملہ ہوگیا اور کسی پر الفاظ کے حملے کرتے ہیں کل کو ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس ‘ پاک سیکرٹریٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس بھی غیر محفوظ ہے انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو کراچی سے جانے سے روکا تو انہوں نے اس وقت کے وزیر داخلہ کی رپورٹ مسترد کردی اور کہا کہ اگر بطور وزیراعظم اپنے شہر نہیں جاسکتی تو پھر مجھے وزیراعظم رہنے کا حق نہیں اس صورتحال میں اس کے شہر محفوظ نہ ہوں یا پھر آپ مستعفی ہوجائیں جس کے بعد نصیر الله بابر کراچی میں امن واپس لائے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ سب سے پہلے عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے مگر افسوس اس جانب توجہ نہیں دی گئی انہوں نے کہاکہ طالبان ایک جانب دہشت گردی کی کارروائیاں نہیں روک رہے مگر دوسری طرف حکومت مذاکرات کررہی ہے انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے بھی پاکستانی قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو طالبان نے کیا ہے اور سپاہیوں کو ذبح کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکوڑہ خٹک والے کل سعودی عرب سے واپس آرہے ہیں اب معلوم ہوا ہے کہ ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی فوج کے خلاف نہیں ہے لیکن آمریت کے خلاف ہے کیونکہ جنرل ایوب‘ یحیٰ خان‘ ضیاء الحق ‘ سکندر مرزا اور مشرف نے ملک کو تباہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 33 ایجنسیاں بتائی جاتی ہیں مگر جب یہ ادارے ایک سیشن جج کو نہیں بچاسکتے تو پھر ملک کو کیسے بچائیں گی انہوں نے کہا کہ جب ملک ہوگا ‘ جمہوری نظام چلے گا تو میاں نواز شریف ‘ عمران خان اور بلاول بھٹو کی سیاست ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح پارلیمنٹ لاجز پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے اس پارلیمنٹ پر حملہ ہے اور ہم کو دیکھنا چاہی یکہ اس کی کڑیاں کہاں مل رہی ہیں ایسے لوگوں کو معلوم نہیں جمہوریت کیا ہے کیونکہ انہوں نے کوئی قربانیاں نہیں دیں ایسے لوگ ایوانوں میں بٹھائے جاتے ہیں ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے رکن اسمبلی معین وٹو نے کہا کہ اب ہمیں ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سے زیادہ اچھی کوئی حکومت اور موجودہ اپوزیشن سے اچھی اپوزیشن کوئی نہیں ہے میں ہمیں اس موقع پر فائدہ اٹھانا چاہیے وزیراعظم اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر فیصلے کررہے ہیں اس سے جمہوریت کو تقویت ملے گی ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی سردار نبیل گبول نے کہا کہ ایوان میں ملک کی داخلہ پالیسی پر بحث ہورہی اور 342 کے ایوان میں سے صرف 12 ارکان اسمبلی موجود ہیں جو کہ نہایت شرم کی بات ہے۔

جماعت اسلامی کی رکن اسمبلی عائشہ سید نے کہا کہ ملک کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں اور اپنے فرائض سے غافل ہیں انہوں نے کہا کہ قومی داخلی پالیسی میں اسلامی پہلو نہیں ہیں یہ پالیسی انڈیا اور چین کی تو ہوسکتی ہے لیکن پاکستان کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرکے اس پر قابو پاسکتے ہیں، مدارس دہشت گردی کے ذریعہ نہیں بلکہ اس میں انجنیئر اور ڈاکٹر بھی شامل ہیں انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے عزت نفس کا خیال رکھیں اور اداروں میں سفارش کلچر ختم کیا جائے۔