سپریم کورٹ کا ضلعی عدا لتو ں میں 48گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے، واک تھروگیٹس بحا ل کر نے کا حکم ،جاں بحق ہونے والے افرادکے ورثاء کو معاوضے کی ادائیگی کی جا ئے ، عدالت ، ہائی کورٹ بار ،اسلام آباد بار کے صدور اور آئی جی اسلام آباد سے تحریری جواب طلب ،ملک کی عدالتوں کا یہ حال ہے تو حکومت عام عوام کے تحفظ کیلئے کیا کرے گی ان کو کون تحفظ فراہم کرے گا ۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس پر ریما رکس ، سیکرٹری داخلہ نے رپورٹ عدا لت میں پیش کر دی ، حملے کے دوران 47اہلکار مختلف عدالتوں میں موجود تھے، سیکرٹری داخلہ

بدھ 5 مارچ 2014 08:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5مارچ۔ 2014ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے 48گھنٹے میں ضلعی عدا لتو ں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور واک تھرو گیٹس لگانے اور جاں بحق ہونے والے لوگوں کے ورثاء کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے جبکہ ہائی کورٹ بار اور اسلام آباد بار صدور اور آئی جی اسلام آباد سے تحریری جواب بھی طلب کرلیا ہے ، سانحہ کے حوالے سے عینی شاہدین بھی اپنا جواب د اخل کرسکتے ہیں عدالت نے پیر تک سیکریٹری داخلہ سے بھی واقعہ پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

اس مو قع پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ احساس اداروں نے حملے کی اطلاع دی تھی اس کے باوجود اتنا بڑا سانحہ ہوجانا بہت بڑا سکیورٹی لیپس ہے اگر وہاں پر سکیورٹی اہلکار موجود تھے تو انہوں نے فائرنگ کرکے حملہ آوروں کو زخمی کیوں نہیں کیا اگر ملک کی عدالتوں کا یہ حال ہے تو حکومت عام عوام کے تحفظ کیلئے کیا کرے گی ان کو کون تحفظ فراہم کرے گا ، منگل کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں اسلام آباد ایف 8 کچہری حملوں پر از خود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، سماعت کے آغاز میں سیکریٹری داخلہ نے حملوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

(جاری ہے)

رپورٹ پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ رپورٹ کے مطابق ڈیوٹی پر 66اہلکار تعینات تھے، مگر یہ بتائیں کہ موقع پر کتنے اہلکار موجود تھے۔سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ وقوعہ کے وقت 47 اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باقی اہل کار غیر حاضر تھے، جس پر سیکریٹری داخلہ نے عدالت کے سامنے اقرار کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں یہ درست ہے کہ باقی غیرحاضر تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سیکریٹری داخلہ سے مزید سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا موجودہ47 اہلکاروں میں سے کسی نے حملہ آوروں پر فائر کیا؟کیا کسی اہل کار کی فائرنگ سے حملہ آور زخمی ہوا؟ جسٹس خلجی کا کہنا تھا کہ آپ کے آئی جی کو کسی چیز کاعلم ہے نہ ہی کوئی پرواہ۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ٹارگٹ پر تھا، کیا جائے وقوع پر سیکیورٹی کیمرے نصب تھے؟سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ جی نہیں، جس جگہ کارروائی ہوئی وہاں کیمرے نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واک تھرو سیکیورٹی گیٹ بھی خراب تھے، سیکریٹری داخلہ شاہد خان کا کہنا تھا کہ متعلقہ تھانے نے بروقت کارروائی کی۔اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس46منٹ بعد پہنچی، ساری پولیس جائے وقوع سے بھاگ گئی تھی، دہشت گردوں نے تمام ججوں کے چیمبر میں ہینڈ گرینڈ پھینکے۔ جس کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہڑتال کر رکھی ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آج صرف اسی کیس کی سماعت کریں گے، چیف جسٹس نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ 48گھنٹے میں کچہری میں اچھے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں، کچہری کے تینوں واک تھرو گیٹس بحال کریں،چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ احساس اداروں نے حملے کی اطلاع دی تھی اس کے باوجود اتنا بڑا سانحہ ہوجانا بہت بڑا سکیورٹی لیپس ہے اگر وہاں پر سکیورٹی اہلکار موجود تھے تو انہوں نے فائرنگ کرکے حملہ آوروں کو زخمی کیوں نہیں کیا اگر ملک کی عدالتوں کا یہ حال ہے تو حکومت عام عوام کے تحفظ کیلئے کیا کرے گی ان کو کون تحفظ فراہم کرے گا ۔

ہمیں لگتا ہے کسی کو امن میں دلچسپی ہی نہیں وگرنہ اس طرح کے حادثات کو روکنے کا فول پروف بندوبست کیا جاتا ۔ حیرت کی بات ہے کہ سکیورٹی اداروں کو اتنا بھی نہیں پتا کہ حملہ آوروں کی تعداد کتنی تھی جبکہ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی کے حوالے سے لگتا ہے کسی کو دلچسپی نہیں سی سی ٹی وی کیمرے ایسے لگائے جائیں کہ جس سے کم از کم حملہ آوروں کے چہروں کی شناخت تو ہوسکے یہ حکم ہم نے پہلے بھی دیا تھا اب بھی دے رہے ہیں اگر اس پر عمل نہ ہوا تو ذمہ داروں کو اڈیالہ جیل بھیج دیا جائیگا ۔

دوران سماعت بعض صوبوں کے چیف سیکرٹریز کی جانب سے عدالتوں میں کئے گئے سکیورٹی انتظامات بارے رپورٹ بھی پیش کی گئی تاہم عدالت نے سماعت دس مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ ضلع کچہری کی سکیورٹی کو فول پروف بنایا جائے اڑتالیس گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں کچہری کے تینوں دروازوں پر سکیورٹی کو موثر بنایا جائے ۔

زخمی اور شہید ہونے والے لوگوں کے ورثاہ کیلئے فوری طور پر معاوضوں کا اعلان کیاجائے ہسپتالوں میں زخمی ہونے والوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں ،۔۔ علاوہ ازیں اگر آئینی شاہدین بھی اپنا جواب داخل کرنا چاہے تو وہ بھی تحریری شکل میں داخل کراسکتے ہیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے واقعہ پر آئی جی سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو پیر تک تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیدیا، جب کہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئندہ سماعت پر بتایا جائے کہ کتنے اہل کار جائے وقوعہ پر تعینات تھے اور کتنے مسلح تھے۔