سینٹ میں ارکان اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعہ پر پھٹ پڑے،حکومت کی غیرسنجیدگی اور وزراء کی عدم حاضری پر احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ، چیئرمین نے بھی ایجنڈا ملتوی کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا،طالبان کی جنگ بندی کے کے بعد ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ ارکان کا سوال، پولیس و انٹیلی جنس اداروں کی حملہ کو روکنے میں ناکامی پر بھی سخت تنقید،سرکار خود دہشت گردی میں ملوث یا دہشت گردوں کی سرپرستی کررہی ہے،سینیٹر حمداللہ،حکومت فوج کو طالبان اور عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کرے ،طاہر مشہدی،جس گروہ نے کچہری میں کارروائی کی ان سے بھی مذاکرات شروع کرنے چاہئیں،مشاہد

منگل 4 مارچ 2014 08:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4مارچ۔ 2014ء)سینٹ میں ارکان اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعہ پر پھٹ پڑے اور حکومت کی غیرسنجیدگی اور وزراء کی عدم حاضری پر احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا جس پر چیئرمین نے بھی ایجنڈا ملتوی کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا،ارکان نے سوال کیا کہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ اور پولیس و انٹیلی جنس اداروں کی حملہ کو روکنے میں ناکامی پر بھی سخت تنقید کی۔

پیر کے روز سینیٹ کے 102 ویں اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر سینیٹ نے ایف ایٹ کچہری میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی شدید مذمت کی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حمد الله کا کہنا تھا کہ ملکی قومی سلامتی پالیسی جھوٹ پر مبنی ہے جس میں مدرسوں پر دہشت گردی کے ذمہ دار ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کون سے مدرسوں سے برآمد ہوئے یا فارغ التحصیل تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سرکار خود دہشت گردی میں ملوث ہے یا پھر دہشت گردوں کی سرپرستی کررہی ہے لہذا وہ مجرم ہے، 26 انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے جبکہ وہ صرف کچہری میں آنے والے دو دہشت گردوں کو روکنے میں بھی ناکام ہوئے تین گاڑیوں میں آنے والے دہشت گردوں کے سامنے جج سڑکوں پر جان بچانے کیلئے دوڑتے رہے جن کو دانیال عزیز نے تحفظ فراہم کرتے ہوئے اپنے گھر میں پناہ دی۔

اسفندیارولی ‘ بشیر بلور‘ مولانا فضل الرحمن پر حملے ہوئے بے نظیر کو ظالمانہ حملے میں شہید کیا گیا پاکستان کی تمام اہم جگہیں اور سرحدیں غیر محفوظ ہیں اگر کوئی محفوظ ہے تو وہ صرف قبرستان ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو ملک کا کیا بنے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے وفاقی دارالحکومت میں دہشت گردی کی واردات کی شدید مذمت کرتے ہوئے وہاں موجود سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی بزدلی اور فرار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی دہشت گردی سے عام آدمی سے لے کر جرنیل تک کوئی محفوظ نہیں ہے اور حکومت اس سب کے باوجود ان سے مذاکرات کرنے کی خواہشمند ہے ۔ خدا کے لئے موجودہ حکومت اب جاگ جائے اور مسلح افواج کو طالبان اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرے کیونکہ انہوں نے دارالحکومت پر نہیں بلکہ پاکستان کی غیرت پر حملہ کیا ہے جس پر پاکستانی عوام ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

اس موقع پر سینیٹر سحر کامران نے سوال کیا کہ ملک میں سکیورٹی کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان درندوں کے ہاتھوں جتنی شہادتیں ہوئی ہیں اتنی پاکستان کی جنگوں میں بھی نہیں ہوئیں اب ان کے خلاف کارروائی ہونا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنماء مشاہد حسین سید نے آج کے دن کو وفاقی دارالحکومت کا ایک سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دونوں جب ڈی جی نیکٹا نے کہا کہ اسلام آباد کو شدید خطرہ ہے تو ان کے باس وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد کو محفوظ ترین قرار دیا، انہوں نے طنزاً کہا کہ اب طالبان کے ساتھ ساتھ جس گروہ نے کچہری میں کارروائی کی ہے ان سے بھی مذاکرات شروع کرنے چاہئیں ۔

مسلم لیگ ق کے سینیئر رہنماء کا کہنا تھا کہ اگر صورتحال ایسے ہی چلتی رہی تو حکومت کے لئے مستقبل میں مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ آج اگر طالبان حملہ کرکے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہیں تو کل وہ امن معاہدے سے منحرف ہوکر اس سے بھی مکر جائیں گے۔ ان کاکہنا تھا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امن معاہدہ کن سے کیا جارہا ہے؟ سینیٹر سردار علی نے ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ واقعہ کے بعد دو گھنٹے تک نہ تو کوئی حکومتی موقف سامنے آیا نہ ہی کسی حکومتی شخصیت نے عوام کو اعتماد میں لیا کہ اس پر ان کا ردعمل کیا ہے، انہوں نے اس امر کو افسوسناک قرار دیا کہ تین ویگو گاڑیوں میں 10-12 دہشت گردوں کا مسلح ہوکر آنا اور بغیر کسی گرفتاری اور ہلاکت کے فرار ہو جانا جو کہ سکیورٹی اداروں کی شدید ناکامی ہے باوجود یہ کہ جائے وقوع کے نزدیک آئی جی پولیس ‘ ڈی سی ‘ مجسٹریٹ ا ور تھانہ مارگلہ موجود تھا۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل احمد نے ایوان میں قابل ذکر حکومتی وزراء بالخصوص چوہدری نثار علی خان کی عدم موجودگی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔ پاکستان پیپلزپارٹی ‘ مسلم لیگ ق ‘ متحدہ قومی موومنٹ اور متحدہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے بھی عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل کی قیادت میں ایوان سے واک آؤٹ کیا اور کہا کہ جب حکومت جواب دینے میں سنجیدہ نہیں ہے اور ان کے وزراء ایوان سے غیر حاضر ہیں تو اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔بعدازاں چیئرمین سینیٹر سید نیئر حسین بخاری نے اسلام آباد دہشت گردی پرایوان کے نجی روز کی کارروائی معطل کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا۔