بلوچ سرزمین پر 2006ء سے ابتک 14ہزار بلوچوں کو قتل کیا گیا ،اقوام متحدہ و عالمی ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں، براہمدغ بگٹی

ہفتہ 1 مارچ 2014 03:52

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1مارچ۔2014ء) بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نواب براہمدغ بگٹی نے بلوچستان میں ریاستی ظلم جبر بربریت و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب اقوام متحدہ و انسانی حقوق کے اداروں کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ سرزمین پر 2006ء سے ابتک 14ہزار بلوچوں کو قتل کیا گیا اقوام متحدہ و عالمی ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں خضدار توتک سے اجتماعی قبر کی دریافت اور تشدد زدہ لاشوں کے ملنے کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے عالمی ادارے خصوصی کمیٹی تشکیل دیں تاکہ جنگی جرائم میں ملوث ریاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوسکے نواب محمد اکبر خان بگٹی ،نوابزادہ بالاچ مری ،غلام محمد بلوچ ،شیر محمد بلوچ ،لالہ منیرسمیت دیگر بلوچ سیاسی رہنماوٴں کے قتل کی تحقیقات کرکے بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرائم میں ملوث ریاست کے خلاف مقدمہ چلایا جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جینیوا پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر بی آر پی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی بی آر پی یورپی ممالک کے صدور بھی موجود تھے انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ بی آر پی یورپی ممالک کے صدرو و ذمہ داران کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں بلوچستان کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ عالمی میڈیا کے توسط سے عالمی برادری و اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے کیونکہ بلوچوں کی نسل کشی کی جارحانہ پالیسیاں انتہائی تیز کردی گئی ہیں جو 1948ء سے لے کر تاحال جاری ہیں بلوچستان اس وقت سے لے کر تاحال جل رہا ہے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں کوئی دن ایسا نہیں جب بلوچ قوم پر قوتوں کی جانب سے ظلم کے پہاڑ نہ توڑے جاتے ہوں طاقت کے استعمال کی جارحانہ پالیسیاں تسلسل کے جاری ہیں نہتے و بے گناہ بلوچوں کو نہ صرف جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے بلکہ انہیں غیر انسانی ظلم وتشدد کا نشانہ بناکر ان کی تشدد زدہ و مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں بلوچستان میں پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کی جانب سے تعلیم یافتہ نوجوانوں ، سیاسی کارکنوں ، اساتذہ ، وکلاء ، شاعروں ، دانشوروں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے روشن خیال لوگوں یعنی بلوچ معاشرے ان لوگوں کو ہدف بنایا گیا جبری طور پر لاپتہ کرکے ان کی لاشیں پھینکی گئیں جو باشعور تھے سال دو ہزار چھ سے لے کر ابتک 14ہزار بلوچوں کو ریاستی فورسز نے قتل کیا بیس ہزار سے زائد بلوچوں کو ماورائے آئین و قانون گرفتار و لاپتہ کیا گیا جو اس وقت بھی ریاستی عقوبت خانوں زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں جن میں خواتین و بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ و مغربی دنیا نے انتہاء پسندی و دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر پاکستان کی فوجی و معاشی امداد کی لیکن دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکی گئی انتہاء پسندی و مذہبی جنونیت کو پروان چڑھانے والی ریاست نے انتہاء پسندی و دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ملنے والی عالمی امداد بلوچوں کی نسل کشی پر صرف کی صرف یہی نہیں گزشتہ سال ستمبر میں بلوچستان میں آنے والے تباہ کن زلزلہ نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہم نے عالمی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی اور عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی تاکہ عالمی ادارے خود جاکر نہ صرف صورتحال کا جائزہ لیں بلکہ متاثرہ بلوچوں کی امداد کریں لیکن بلوچ دشمن ریاست نے امن امان کی مخدوش صورتحال کو جواز بناکر عالمی اداروں کو متاثرہ علاقوں تک رسائی نہیں دی جبکہ ہم نے واضح کیا کہ رسائی نہ دینے کا مقصد اپنے گناہوں پر پردئہ ڈالنے کی کوشش ہے کہ کہیں ریاستی قوتوں کے جرائم سے نقاب نہ اتر جائے ابھی رواں سال 25جنوری کو خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر دریافت ہوئی میڈیا کے توسط سے پہنچنے والی خبروں کے مطابق اس کی نشاندہی ایک چرواپے نے کی گوکہ حکومتی عہدیداران نے صرف پندرہ لاشوں کے ملنے کی تصدیق کی لیکن حقائق یہاں بھی چھپانے کی کوشش کی گئی جبکہ ان لاشوں کی تعداد 169ہے جن پر کیمیکل ڈال کر انہیں ناقابل شناخت بنایا یہ ان لوگوں کی اجتماعی قبریں ہیں جنہیں ریاستی فورز کی جانب سے لاپتہ کیا گیا عقوبت خانوں غیر انسانی ظلم وتشدد کا نشانہ بناکر شہید کیا اور پھر اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر وہاں مزید کھدائی کی جائے تو مزید لاشیں بھی مل سکتی ہیں لیکن حسب روایت پاکستانی عہدیداروں نے اپنے جرائم پر پردئہ ڈالنے کیلئے اجتماعی قبر سے ملنے والی لاشوں کا الزام بھی غیر ملکی ایجنسیوں پر ڈال دیا جو پاکستانی ذہنیت کی عکاسی ہے اجتماعی قبر کی دریافت اور تشدد زدہ لاشوں کا ملنا ریاستی جبر کی کوئی نئی بات نہیں کیونکہ مارچ دوہزار گیارہ میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے بھی چھ لاشوں پر مشتمل اجتماعی قبر کی دریافت ہوچکی ہے انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اقوام متحدہ و انسانی حقوق کے اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف خضدار توتک سے اجتماعی قبر اور لاشوں کے ملنے پر پاکستان سے جواب طلب کریں بلکہ اس کو عالمی سطح پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انسانی حقوق کا چیمپیئن بن کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے اس ملک کا احتساب کیا جائے اقوام متحدہ اپنا خصوصی مشن بھیجے جو اس پوری صورتحال کی تحقیقات کرے اور حقائق سامنے لائے انہوں نے کہا انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے برسرپیکار عالمی اداروں کو ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینی چاہیئے جو نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے بلکہ حکومت پاکستان فورسز و خفیہ اداروں پر دباوٴ ڈالے تاکہ جبری طور پر لاپتہ کئے جانے والے افراد کی بازیابی و رہائی ممکن ہوسکے نواب محمد اکبر بگٹی ،نوابزادہ بالاچ مری ،غلام محمد بلوچ ،شیر محمد بلوچ ،لالہ منیر بلوچ سمیت تمام بلوچ سیاسی رہنماوٴں و کارکنوں کے قتل کی عالمی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں اور ریاست پاکستان کے خلاف عالمی عدالت انصاف بین الاقوامی قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے جو انسانی حقوق ،جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہے اور عالمی میڈیا سے بھی ہم اپیل کریں گے کہ وہ بلوچستان کے جنگ زدہ خطہ تک رسائی حاصل کریں اور اپنی خصوصی ٹیمیں بھیجیں تاکہ ریاست کے جنگی جرائم عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہوسکیں انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم اپنی آزاد و خود مختار ریاست کیلئے جدوجہد میں برسرپیکار پیکار ہے جو اس کا آئینی حق ہے اس لئے ہم اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کے اداروں سمیت تمام مہذب ممالک و انصاف کے عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں فوری و بلاتاخیر مداخلت کرتے ہوئے بلوچ قوم کی نسل کشی رکوانے اور بلوچ قوم کو ریاستی ظلم جبر و بربریت سے نجات دلانے میں اپنا موٴثر وعملی کردار ادا کریں ۔