بیوروکریٹس کی ترقیوں کا کیس،درخواستیں چیف جسٹس کوبھجوا دی گئیں،فیصلہ دینے والے دو ججوں کو بنچ میں شامل کرنے کی استدعا،یہ جج فیصلہ کریں گے کہ کیا سمری سپریم کورٹ کے 3 اکتوبر 2013ء کے فیصلے کے نتیجے میں جاری ہونے والی ہدایات کی روشنی میں تھی یا نہیں؟،لڑائی افسروں کے گروپوں میں ہے تحفظات سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کئے جا رہے ہیں، بادی النظر میں فیصلہ 88بیوروکریٹس کے حوالہ سے تھاجسے دوسرے گروپوں نے متنازعہ بنادیا،جسٹس آصف سعید کھوسہ

جمعرات 27 فروری 2014 06:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27فروری۔ 2014ء) سپریم کورٹ نے بیوروکریٹس کی ترقیوں کے حوالے سے دائر مختلف درخواستیں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجواتے ہوئے استدعاء کی ہے کہ وہ ایسا بنچ قائم کریں کہ جس میں 3 اکتوبر 2014ء کو فیصلہ دینے والے دو جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز چوہدری بھی شامل ہوں جو یہ فیصلہ کریں کہ لاء ڈویژن کی قانونی رائے کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے جن 88 افسران کی تنزلی کی سمری وزیراعظم کو ارسال کی تھی اور جو منظور بھی کرلی گئی تھی۔

کیا وہ سمری سپریم کورٹ کے 3 اکتوبر 2013ء کے فیصلے کے نتیجے میں جاری ہونے والی ہدایات کی روشنی میں تھی یا نہیں؟۔ یہ حکم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اقبال حمیدالرحمن اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز جاری کیا ہے۔

(جاری ہے)

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 6 مارچ تک کیلئے ملتوی کردی۔ عدالت نے افنان کریم کنڈی کی جانب سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر دائر توہین عدالت جبکہ اطہر من اللہ کی جانب سے دائر کردہ کسٹم اور ان لینڈ ریونیو افسران کی نظرثانی اور مقدمے میں فریق بنائے جانے کی درخواستوں کی سماعت کی۔

بیوروکریسی کے مقدمے کی سماعت کے دوران اطہر من اللہ ایڈووکیٹ ور افنان کریم کنڈی پیش ہوئے۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں آپ نے فیصلے میں کہا ہے کہ توہین عدالت ہے۔ عدالت نے شاہد رشید سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے پوچھا کہ آپ کیا کہتے ہیں؟ بتائیے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کیا کہا تھا۔ افنان کریم نے عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔ اوریا مقبول عباسی نے درخواست دی تھی۔

ان کو 20 سے 21 ویں گریڈ میں ترقی دی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ صرف ایماندار افسر کو ہی ترقی دی جاسکتی ہے۔ یہ آئینی درخواست دی تھی۔ عدالت نے جب ریکارڈ کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ معاملات میں کوئی طریقہ کار وضع کرنا ضروری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس فیصلے کو دوسرے افسران پر لاگو کردیا۔ قائداعظم کے فرمودات کا بھی ذکر ہے۔ سی ایس بی کی تمام پروسیڈنگز کو کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس آصف سعید نے کہا کہ کیا انفرادی شخص کے معاملے کو سب پر لاگو نہیں کیا جاسکتا اگر ایسا ہوجائے تو کیا اس سے دوسرے متاثر نہیں ہوں گے۔ افنان کریم نے کہا کہ اس حوالے سے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے دو فیصلوں کو بھی اس کا حصہ بنادیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم اس فیصلے کو غلط قرار نہیں دے سکتے۔

اطہر من اللہ نے کہاکہ 3 جون 2013ء کے آرڈر کا جائزہ لیں تو سارا معاملہ واضح ہوجائے گا۔ انفرادی شخص کے مقدمے کو سارے افسران پر لاگو نہیں کیا جانا چاہئے۔ مختلف افسران بارے نوٹس بھی جاری کئے گئے‘ ترمیمی درخواست دائر کی گئی‘ 84 درخواست گزاروں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کیس صرف متعلقہ شخص تک ہونا چاہئے۔

جسٹس آصف سعید نے کہا کہ فیصلے میں ہدایات جاری کی گئی تھیں‘ ہم نے ان کے تحت جائزہ لینا ہے۔ اگر یہ گروپ کیخلاف بھی جائیں گے ہم نے ان کو ہی مدنظر رکھنا ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے معاملے کے سکوپ کو محدود رکھا مگر بعد کے حالات اور دلائل کی وجہ سے انہوں نے اس معاملے کو مزید پھیلادیا۔ افنان کریم کنڈی نے کہا کہ 88 افسران کی ترقیوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔

اس میں لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئی تھی۔ سول سرونٹ ایکٹ کی شق 9 کے تحت فیصلے کئے جائیں۔ حکومت سول سرونٹ پروموشن قواعد کے تحت ہی ایماندار افسران کو ترقی دے۔ جسٹس آصف نے کہا کہبتائیں کہ عدالت کے کس طرح معاملات آپ کو خراب نظر آتے ہیں۔ 21 سیٹوں کی ترقی کے معاملے میں 88 افسران کی ترقی ختم کردی گئی۔

ہم فیصلے کا حصہ نہیں‘ صرف سمجھنے کیلئے پوچھنا چاہتے ہیں‘ عدالت کو بتایا گیا کہ دسمبر 2013ء میں سی ایس پی 197 افسران کو 20 اور 21 ویں گریڈ میں ترقی دی گئی جبکہ 20 سے 21 ویں گریڈ میں 88 لوگوں کو ترقی دی گئی۔ جسٹس آصف نے کہا کہ تشریح میں ایک بات دلچسپ ہوسکتی ہے۔ پہلے 88 کی بات تھی مگر معاملہ 197 تک پہنچ گیا۔ فیصلے میں صرف 88 کا ہی ذکر ہے باقی لوگ شامل نہیں ہیں۔

افنان کریم نے کہا کہ فیصلے میں مختلف گروپس کی بات کی گئی ہے۔ تمام ترقی کے معاملات میں ہدایت کی گئی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 57 سے 88 میں سے صرف 31 افسران کی ترقی افسران کی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ 88 کیسوں میں سے صرف ان درجہ بالا افسران کی ہی بات کی گئی ہے جس کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہے۔ لیاقت علی چغتائی لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ان میں بھی میرٹ اور قواعد کو مدنظر رکھا جائے۔

افنان کریم نے کہا کہ ان دو مقدمات تک بات ختم نہیں ہوجاتی۔ جسٹس آصف نے کہا کہ کینسل 88 ہوئے ہیں مگر اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے متاثرہ لوگ بھی شامل کردئیے گئے۔ جن ججز نے فیصلہ دیا تھا ان میں سے دو جج اب بھی موجود ہیں۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس معاملہ بھیج دیتے ہیں کہ وہ ان پر مشتمل بنچ بنادے اور فیصلہ کردے۔

جنہوں نے یہ فیصلہ لکھا ہے بہتر ہے کہ وجہ خود ہی اپنا فیصلہ پڑھ دیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک بات کی سمجھ نہیں آئی تھی تو انہوں نے اس کو سمجھنے کیلئے لاء ڈویژن سے رائے مانگی تھی اس پر بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ انہوں نے لاء ڈویژن سے رائے مانگی تھی جس میں انہوں نے رائے دی تھی کہ اس سے صرف 88 افسران کا معاملہ ہی زیر بحث تھا باقی اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔

3 اکتوبر 2013ء کو فیصلہ آیا۔ ہم نے 4 اکتوبر کو لاء ڈویژن کو معاملہ بھجوایا تھا۔ لاء ڈویژن نے کہا تھا کہ اس سے دوسرے گروپ متاثر نہیں ہوں گے۔ ہمیں کہا گیا کہ وزیراعظم ہی اس معاملے میں ترقیوں کو ختم کرنے کے احکامات جاری کرسکتے ہیں 20 اکتوبر 2013ء کو وزیراعظم نے 80 پی ایس افسران کی ترقیوں کو معطل کرنے کی سمری کی منظوری دی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اب جبکہ معاملات مکمل ہوچکے ہیں وزیراعظم نے سمری بھی منظور کرلی تھی اور نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جاچکا ہے اب کیسے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرکے وزیراعظم کے احکامات کو واپس کرسکتے ہیں۔

افنان کریم نے کہا کہ میں تو حقائق کی بات کررہا تھا۔ عدالت نے افنان سے کہا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات پر ان کیخلاف کوئی توہین عدالت بنتی ہے۔ افنان نے کہا کہ نہیں بنتی۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ کے دو آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ توہین عدالت نہیں بنتی دوسرا وزیراعظم کا فیصلہ واپس ہونا چاہئے‘ ذرا سمجھائیے۔ اگر کوئی متاثر ہوا ہے تو سروسز ٹربیونلز سے رجوع کریں۔

آپ سب کو دیگر فورمز سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر کوئی مسئلہ حقیقی بنیاد رکھتا ہے تو بتادیں ہم سماعت کریں گے۔ بہت سے لوگوں کی ترقیاں ہوئی ہیں وہ بھی متاثر ہوں گے‘ فیصلے کو سمجھنے میں غلطی ہوسکتی ہے۔ افنان کریم نے کہا کہ میں نے اس طرح سے توہین عدالت کی بات نہیں۔ عبدالرحیم بھٹی ایڈووکیٹ نے کہاکہ 88 کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں۔

ڈی ایم جی برائٹ گروپ ہے۔ گروپس میں لڑائیاں چل رہی ہیں ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔ عدالت نے فیصلہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ سب کی حاضری لگائی جائے۔ توہین عدالت اور دیگر درخواستوں کی سماعت کے دوران سب باتوں کا جائزہ لیا گیا کہ آیا 3 اکتوبر 2013ء کے عدالتی فیصلے کا اثر 88 افسران پر ہوگا یا پھر سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ہم نے ہدایات کا جائزہ لیا ہے اور شفافیت کیساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ان ہدایات میں کچھ پہلوؤں کی تصدیق ضروری ہے تاکہ اس پر اسی طریقے سے عملدرآمد کیا جاسکے اور کوئی ابہام بھی نہ ہو‘ کچھ کنفیوژن جو اب پیدا ہوچکی ہے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بھی معاملے کی مزیدوضاحت کیلئے لاء ڈویژن کو بھجوایا تھا کہ بتایا جائے کہ فیصلے کا اصل مقصد کیا ہے جس کے آنے کے بعد وزیراعظم کو 88 افسران بارے سمری بھجوائی گئی جو منظور کرلی گئی جو معاملہ ہمارے پاس زیر بحث ہے کیا لاء ڈویژن کی ایڈوائس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم کو بھجوائی گئی سمری سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تھی یا نہیں یا کوئی بھی مسئلہ اس میں درپیش تھا۔

ہم نے یہ بھی نوٹ کیا ہے اور محسوس کیا ہے کہ معاملات کو بہتر رکھنے کیلئے مناسب ہوگا کہ اس بنچ کے روبرو اس معاملے کو لگایا جائے جو 3 اکتوبر 2013ء کو جاری کردہ فیصلے کا حصہ تھے اور جنہوں نے فیصلہ دیا تھا‘ آفس معاملہ چیف جسٹس کے پاس بھجوادے جو اس کا جائزہ لے کر اس کا فیصلہ کردے کہ آیا اس حوالے سے کیا تجویز کیا جاسکتا ہے۔ درخواستوں کی مزید سماعت دو ہفتے کے بعد کی جائے گی۔ 6 مارچ کو سماعت ہوگی۔

متعلقہ عنوان :