ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی،تحت نیکٹا کا مضبوط بنایاجائے گا اور اس کے ماتحت دیگر ادارے قائم کئے جائیں گے، انٹیلی جنس رابطہ کیلئے مشترکہ ڈائریکٹریٹ ،ریپڈ ریسپانس فورس اور انسداد دہشت گردی فورس قائم ہوگی جسے ہیلی کاپٹر بھی دیئے جائیں گے،پہلے مرحلے میں چھ ماہ میں مذاکرات کا راستہ اپنایا اور دو ہفتے سے پالیسی پر نظرثانی کی گئی ہے کیونکہ اب خاموش نہیں رہ سکتے تھے،چوہدری نثار،جلد تمام پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس بلایاجائے گا جس میں تمام امور پر بات چیت ہوگی اور ان کی کنفیوژن کو دور کیا جائے گا،نوازشریف،جمہوریت ہی ملک کو درپیش مشکلات سے نکال سکتی ہے، ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہوری قوتیں ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گی،وزیراعظم کا قومی اسمبلی میں مختصر خطاب

جمعرات 27 فروری 2014 06:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27فروری۔ 2014ء)ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی ہے جس کے تحت نیکٹا کا مضبوط بنایاجائے گا اور اس کے ماتحت دیگر ادارے قائم کئے جائیں گے جبکہ انٹیلی جنس کے درمیان رابطہ کیلئے مشترکہ ڈائریکٹریٹ ،ریپڈ ریسپانس فورس اور انسداد دہشت گردی فورس قائم ہوگی جسے ہیلی کاپٹر بھی دیئے جائیں گے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پالیسی کا مسودہ ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے مرحلے میں چھ ماہ میں مذاکرات کا راستہ اپنایا اور دو ہفتے سے پالیسی پر نظرثانی کی گئی ہے کیونکہ اب خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ آپریشن یا مذاکرات جو کچھ بھی کیا جائے اس پر اتفاق رائے بہت ضروری ہے ،ر اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں کررہے اور کسی کو تنقید کا سیاسی جواب نہیں دیا۔

(جاری ہے)

یہ آسان کام نہیں ہے کیونکہ دشمن ملک میں پھیلا ہوا ہے اور سامنے نہیں ہے اب ہمیں تنکا تنکا جوڑ کر اس ملک کو محفوظ بنانا ہے۔بدھ کو یہاں قومی اسمبلی میں قومی سلامتی پالیسی پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ اسلئے تقسیم کیا ہے تاکہ تمام اراکین اسے پڑھ کر اس پر اظہار خیال کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ تیرہ سال سے ملک کو گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے۔

چار حکومتیں آئیں اور گئیں مگر فوکل پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جب بھی ملک کو کسی ایمرجنسی یا دہشت گردی کا سامنا ہو تو اس پر ایک پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ تیرہ سال اس پر کچھ نہیں کیا گیا۔ حکومت کنفیوزڈ نہیں ہے۔ چھ ماہ میں سر جوڑ کر بیٹھے اور پھر ایک پالیسی تشکیل دی اور متفقہ طور پر کابینہ نے اسے منظور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سکیورٹی پالیسی حکومت کی نہیں اس قوم کی سکیورٹی پالیسی ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ تمام ممبران کا مشورہ آئے اسلئے یہ پارلیمنٹ میں پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تجربات کو بھی سامنے رکھا ہے۔ بھارت‘ سری لنکا‘ امریکہ اور برطانیہ کو سالہا سال لگے ہیں سکیورٹی پالیسی کی تشکیل میں مگر ہم نے پانچ ماہ میں یہ کام مکمل کرلیا۔ سیاسی جماعتوں‘ عسکری قیادت اور ریٹائرڈ فوجیوں سمیت ماہرین سے مشاورت کی۔

افسوس کہ ایم کیو ایم کے علاوہ کسی جماعت نے ڈرافٹ نہیں بھجوایا۔ اس پر ایم کیو ایم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کسی صوبے سے کوئی سفارش نہیں بھجوائی گئی صرف ٹی وی ٹاک شوزمیں باتیں کی گئیں۔ تمام مکاتب فکر سے بھی مشاورت کی۔ یہ پالیسی حرف آخر نہیں ہے اراکین پارلیمنٹ اپنی آراء دیں اگر وہ ہمارے دائرہ کار میں ہوئیں تو ان کو بھی اس پالیسی میں شامل کیا جائے گا۔

اس معاملے پر اراکین کی آراء کا خیرمقدم کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پالیسیوں پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں کیونکہ سکیورٹی اور اقتصادی و معاشی سمیت بہت سے معاملات ہیں۔ یہ ایک وسیع ایریا ہے اور چاہتے ہیں کہ ماضی کے تجربات سے اس کو بہتر بنائیں۔ یہ 100 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ تین بنیادی نکات پر مشتمل ہے اور تین حصے ہیں۔ ایک حصہ خفیہ ہے اور سکیورٹی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے لے کر دنوں وقتوں کے حساب سے ایگزیکٹو اور ایڈمنسٹریٹو اختیارات میں آتا ہے جس کی تشہیر نہیں ہوسکتی۔

دوسرا معاملہ سٹریٹجک ہے کہ پالیسی آپشن پر آگے کیسے بڑھنا ہے کیونکہ سابقہ ادوار میں جی ایچ کیو‘ کراچی مہران بیس‘ کامرہ اور اسلام آباد میں بڑے واقعات پر خاموشی اختیار کی گئی۔ دوسرا معاملہ مذاکرات کا ہے‘ تیسرا فوجی آپریشن اور چوتھا مذاکرات کیساتھ آپریشن کرنا ہے اور حکومت نے پہلے مرحلے میں چھ ماہ میں مذاکرات کا راستہ اپنایا اور دو ہفتے سے پالیسی پر نظرثانی کی گئی ہے۔

مذاکرات کرتے رہے اور صدق دل سے مذاکرات چاہتے تھے۔ پہلے علماء کی کمیٹی بنائی اور خاموشی سے کام کیا لیکن ڈرون حملوں کے بعد طالبان نے مذاکرات سے انکار کردیا مگر حکومت نے ان سے بات چیت کی جنہوں نے پاکستان پر آج تک کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ اسی اثناء میں بنوں میں ایک واقعہ رونماء ہوگیا جس کے بعد وزیراعظم نے عسکری قیادت کو طلب کرکے سرعام مذاکرات شروع کئے ہیں اور سترہ دن سے یہ مذاکرات جاری ہیں اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی مگر افسوس کراچی اور ایف سی اہلکاروں کی شہادت کا معاملہ سامنے آگیا ۔

ان واقعات کے بعد وزیراعظم نے کہہ دیا کہ صرف مذاکرات کئے جائیں اور دوسری جانب سے تشدد کی کارروائیاں نہ رکیں تو پھر حکومت کو فیصلہ کرنے کا حق ہے اور بتا دیا کہ اب مذاکرت آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر عسکری قیادت ، خیبر پختونخواہ حکومت اور میڈیا کے اہم لوگوں سے بات کی گئی ہے بات چیت کا ایک ایک لفظ بتایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ سابق مشرف دور میں جب عسکری گروپوں سے بات چیت اور معاہدے کا کہا گیا تو واضح کیا گیا تھاکہ وہاں بھی نمٹا دیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اب اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے اور دفاعی اداروں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انٹیلی جنس معلومات کے مطابق فضائیہ نے دہشتگردوں پر ٹارگٹ حملے کئے اور اڑھائی دنوں کی کارروائی کے بعد وقفہ کردیا گیا مگر اس کے باوجود کوہاٹ اور پشاور میں نشانہ بنا دیا گیا پھر گزشتہ رات یہ رد عمل آیا اور اب اگر تشدد کی کارروائی ہوگی تو اس کا جواب ضرور آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سیاست کو ایک طرف رکھ کر مکمل طور پر متحرک ہے کہ امن قائم کیاجائے کیونکہ یہ صرف امن کا مسئلہ نہیں اس ملک کے وجود کا مسئلہ ہے ملک کے مستقبل کے لیے ایک پالیسی بنانی ہے اور اس کو بھی آگے لے کر جانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جن ملکوں میں دہشتگردی کا مسئلہ درپیش آیا جیسے امریکہ ، برطانیہ ، ایران ، سری لنکا وہاں سیاسی اتفاق رائے کا بھی مسئلہ ہوا۔

اس معاملے پر اب سیاسی اتفاق ضروری ہے،آپریشن یا مذاکرات جو کچھ بھی کیا جائے اس پر اتفاق رائے بہت ضروری ہے اس لیے اب ہم کو متفق ہونے کی ضرورت ہے اور اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں کررہے ہیں اور کسی کو تنقید کا سیاسی جواب نہیں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آسان کام نہیں ہے کیونکہ دشمن ملک میں پھیلا ہوا ہے اور سامنے نہیں ہے اب ہم کو تنکا تنکا جوڑ کر اس ملک کو محفوظ بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ انٹیلی جنس اداروں ، وفاقی اداروں میں کوآرڈنیشن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کو بھی اس معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کرکٹ میچ کی کوئی دعوت طالبان کو نہیں دی ہے اس لئے گزارش ہے کہ اتنی اہمیت طالبان کو مت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پونے دو لاکھ غیر ر جسٹرڈ لوگ اسلام آباد کے اردگرد بسنے دیئے گئے اور سب سے پہلے اس معاملے پر توجہ دی اور مین علاقے کو ریگولیٹ کیا اور مشکلات آئیں لیکن ثابت قدمی سے 51ہزار گھروں سے زائد گھروں کا ریکارڈ ہم کو موصول ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ممالک کی انٹیلی جنس کی اسلام آباد میں گھروں میں موجودگی کی بات آئی تو اس کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 82 کچی آبادیاں دارالحکومت میں تھیں اور پورے ملک کو اسلام آباد سمیت محفوظ بنائیں گے لیکن یہ صرف حکومت نہیں تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کہ نیکٹا کے ادارے پر توجہ تک نہیں دی گئی اس ادارے کو مزید بہتر بنائیں گے،اس کے زیر اثر ایک اور ادارہ بنائیں گے جو جوائنٹ اٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ بنائیں گے اور ریپڈ ریسپانس فورس تشکیل دے رہے ہیں جبکہ انسداد دہشتگردی فورس انٹیلی جنس معلومات کے بعد کام کرے گی اور ان کو ہیلی کاپٹر فراہم کرینگے۔

پاکستان کی سب سے بڑی ترجیح امن وامان کا قیام ہے اور سیاست کو ایک طرف رکھ کر آ گے بڑھیں گے اس ملک کی بقاء کے لیے اپوزیشن ہمارا ساتھ دے مگر صرف تنقید نہیں ہم مل کر ساتھ آگے چلیں گے ۔دوسری جانب وزیراعظم محمد نوازشریف نے یقین دلایا ہے کہ جلد تمام پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس بلایاجائے گا جس میں تمام امور پر بات چیت ہوگی اور ان کی کنفیوژن کو دور کیا جائے گا اور کہا ہے کہ یہ جمہوریت ہی ہے جو ملک کو درپیش مشکلات سے نکال سکتی ہے۔

اس ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہوری قوتیں ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گی۔بدھ کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی طرف سے اٹھائے گئے بعض نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ حکومت نے مزید کنفیوژ کردیا ہے تو میں اپوزیشن لیڈر سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی اس کنفیوژن کو دور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل شروع کیا اور حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی ہر معاملے پر میڈیا کے ذریعے قوم کو بریفنگ دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا احترام کرتا ہوں اور ان کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہوں کہ مل کر تبادلہ خیال ہوناچاہئے اور اس معاملے پر جلد تمام پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس بھی بلایا جائے گا اور ان سے تمام معاملات پر بات کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بہت محنت سے کام کیا ہے جس پر میں ان کو نہ صرف شاباش دیتا ہوں بلکہ ان کی اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو بھی سراہتا ہوں کیونکہ یہ پالیسی صرف (ن) لیگ حکومت کی نہیں بلکہ یہ ریاست‘ ملک و قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اور سیاسی قیادت اپنی آراء دیں اگر وہ اس قابل ہوئیں تو ان کو بھی ضرور شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر تمام سیاسی قیادت کو اپنا حصہ ڈالنا چاہئے اور برابری کی سطح پر شریک ہونا چاہئے اور اپوزیشن کی طرف سے جو بھی آراء آئیں گی ان کا خیرمقدم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا ماحول آج سے بیس سال سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ہم سب لوگوں نے غلطیوں سے ہی سیکھا ہے۔قانون کی حکمرانی،‘ آزاد عدلیہ اور جمہوریت کیلئے جدوجہد کی ہے اور اتنی جدوجہد کے بعد بھی اگر اصلاح نہ کریں تو یہ زیادتی ہوگی اور اب سیاسی قیادت نے اپنی غلطیوں کی اصلاح کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے بہت خوش ہوں۔ یہ جمہوریت ہی ہے جو ملک کو درپیش مشکلات سے نکال سکتی ہے۔ اس ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہوری قوتیں ہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گی۔