سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس، وزیر دفاع کی عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار،وزارت دفاع کے زیر استعمال کمرشل اور انڈسٹریل زمینوں کے ریکارڈ کی تفصیلات طلب ،نوشہرہ کے متاثرین کے ایک ارب 56کروڑ کے واجبات کی ادائیگی کیلئے رقم اس یا اگلے بجٹ میں مختص کر لی جائیگی،وزارت دفاع کے حکام کی یقین دہانی

بدھ 26 فروری 2014 07:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26فروری۔2014ء ) سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے اے ایف وی نے رینجز نوشہرہ کے اجلاس میں وفاقی وزیر دفاع کی عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائمہ کمیٹیاں پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اجلاس کا انعقاد وزیر کی مشاورت اور یقین دہانی کے بعد کیا گیا۔وزیر کا شریک نہ ہونا اور اپنی سرکاری مصروفیت کی بر وقت اطلاع نہ دینا پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے ،کمیٹی نے وزارت دفاع کے زیر استعمال کمرشل اور انڈسٹریل زمینوں کے ریکارڈ کی تفصیلات اگلے اجلاس میں طلب کر لیا ۔

اجلاس میں وزارت دفاع کے حکام نے وزارت کے زیر استعمال زمینوں کی تفصیل کے بارے کمیٹی کو مکمل تفصیلات فراہمی کی یقین دہانی کرا تے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں سروسز ہیڈ کوارٹر ز کو خط لکھ دیا گیا ہے اورنوشہرہ کے متاثرین کے ایک ارب 56کروڑ کے واجبات کی ادائیگی کیلئے رقم اس یا اگلے بجٹ میں مختص کر لی جائیگی۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس منگل کو سینیٹر افراسیاب خٹک کی صدارت میں ہوا۔

کنوینیر کمیٹی سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کے نہ آنے سے کمیٹی اپنا کام روک دے ایک اجلاس کا انتظار کیا جا سکتا ہے اگر وزیر دفاع نہ آئے تو قانونی اور پارلیمانی راستے اختیار کیے جائیں گے ۔شخصیات اور اداروں کی بجائے ریاستی اداروں کی بہتری اور ملک کو مضبوط بنانے کیلئے یکجا ہو کر کام کرنا ہو گا۔ موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جارہی سینیٹ کا موجودہ اجلاس پارلیمانی سال کا آخری اجلاس ہے، 9ماہ کے دوران ایک بار بھی وزیر اعظم سینیٹ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جو ن لیک اور سیاسی قوتوں کیلئے اچھا پیغام نہیں ۔

میڈیا اور عدلیہ آزاد ہے،پارلیمنٹ کو بھی با اختیار بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام حکومت اور سیاسی قوتوں کے عمل سے ہی ممکن ہے ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد حکومت دونوں ایوانوں کے جواب دہ ہے ۔اجلاس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر ، سینیٹر کلثوم پروین، سیکرٹری وزارت آصف نذیر اور وزارت دفاع کے افسران نے شرکت کی۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کھربوں کے بجٹ میں سے نوشہرہ کے متاثرین کیلئے ایک ارب 56کروڑ روپے کی قلیل رقم کی ادائیگی وزارت کیلئے مشکل نہیں، پچھلے اجلاس میں وزارت خزانہ کے ذریعے وزیر اعظم سے سمری کی منظوری کے ذریعے متاثرین کو ادائیگیوں کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن معاملہ جوں کا توں ہے ۔

سیکرٹری وزارت نے یقین دہانی کروائی کہ وزارت خزانہ کیساتھ رابطے میں ہیں اس بجٹ میں یا اگلے بجٹ میں رقم مختص کر دی جائیگی ۔ سینیٹر فرخت اللہ بابر نے ملٹری لینڈ پالیسی 2007کے بارے میں کہا کہ سرکاری افسران اہم ترین معاملے پر جواب نہیں دے سکتے ۔ وزارت دفاع کے زیر استعمال کمرشل اور انڈسٹریل زمین کہاں کہاں موجود ہیں اور سرگرمیاں کس جگہ اور کہاں پر ہو رہی ہیں کہ بارے میں تفصیل طلب کی گئی تھی ۔

فوجی فاونڈیشن اے ڈبلیو ٹی اور وزارت دفاع کے سول اداروں کی سرگرمیوں کی تفصیل ایوان میں موجود ہے یہ کوئی راضی نہیں رہا ۔ سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ سروسز ہیڈ کوارٹرز کو تفصیلات کی فراہمی کیلئے خط لکھ دیئے ہیں اور تفصیلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائیگا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فوج جیسے منظم ادارے کی طر ف سے چھوٹے سے معاملے کی تفصیل نہ دینا ممکن نہیں ملٹری لینڈ دفاتر میں تمام ریکارڈ موجود ہے کمرشل اور انڈسٹریل سرگرمیوں سے حاصل کر دہ کرایہ جات اور حکومتی خزانے میں جمع ہونیوالی رقم کی آڈٹ رپورٹ تمام سی ای اوز کو خط لکھ کر حاصل کی جائے۔

سینیٹر فر حت اللہ بابر نے مزید کہا کہ وزارت دفاع کی طرف سے حاصل کردہ پرانی زمینوں اور پچھلے تمام غلط فیصلوں اور مراعات کو جائز قرار دینے کا مطلب بڑی سطح کا ایک اور این آر او ہو گا۔ سینیٹر کلثوم پروین نے آگاہ کیا کہ کوئٹہ میں افواج پاکستان کے زیر استعمال زمین کے حوالے سے معززین علاقہ اور قبائلی معتبرین سے ملاقات کے ذریعے طے ہوا ہے کہ اگر زمین فوج کی ضرورت ہے تو مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے تحت ادائیگی کر دی جائے اور اگر ضرورت نہیں تو مالکان کو واپس کر دی جائے۔

زمین کے مالکان افواج پاکستان کے ساتھ معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ کمیٹی نے زمین کے مالکان کیساتھ کامیاب مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا۔پارلیمانی سیکریٹری جعفر اقبال نے بتایا کہ وزیر دفاع سرکاری مصروفیت کی وجہ سے اجلاس میں نہ آسکے، کمیٹی کے جذبات سے وزیر دفاع کو آگاہ کرونگا اور کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کرائی ۔

متعلقہ عنوان :