حکومت ایک بار پھر 80 ء کی دہائی والی غلطی کرنے جارہی ہے ، شام کے معاملے پر خارجہ پالیسی تبدیل کردی گئی مگر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ،خورشید شاہ، طالبان کے حوالے سے بھی وزیراعظم ایوان کو آگاہ کریں لیڈر بن کر فیصلہ کریں ،وزیراعظم شام کی صورتحال اور طالبان مذاکرات پر ایوان کو اعتماد میں لیں، بتایا جائے فوج کس کے کہنے پر شمالی وزیرستان گئی ،شاہ محمود قریشی، جماعت اسلامی نے آل پارٹیز کانفرنس اور ایم کیو ایم نے آپریشن کا مطالبہ کردیا ، ایوان کو ہر معاملے پر اعتماد میں لیا جائے گا،وفاقی وزیر زاہد حامد کی یقین دہانی،حکومت کی غیر سنجیدگی پر بطور احتجاج شیخ رشید ایوان سے واک آؤٹ کرگئے

منگل 25 فروری 2014 07:37

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25فروری۔2014ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت ایک بار پھر 80 ء کی دہائی والی غلطی کرنے جارہی ہے ، شام کے معاملے پر خارجہ پالیسی تبدیل کردی گئی مگر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ، بتایا جائے کہ ایسی کون سے ناگزیر وجوہات ہیں کہ خارجہ پالیسی پر یوٹرن لے لیا گیا، پہلے ہی افغانستان میں مداخلت کے باعث آگ لگی ہوئی ہے اگر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو ملک مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا ، طالبان کے حوالے سے بھی وزیراعظم ایوان کو آگاہ کریں لیڈر بن کر فیصلہ کریں قوم ان کے ساتھ ہے ، پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بجٹ تجاویز میں قواعد کی خلاف ورزی ہورہی ہے جبکہ مارچ تک تجاویز آنی چاہئیں تھیں مگر ابھی تک نہیں، آئیں شام کی صورتحال اور طالبان مذاکرات پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے، بتایا جائے فوج کس کے کہنے پر شمالی وزیرستان گئی ، جماعت اسلامی نے آل پارٹیز کانفرنس اور ایم کیو ایم نے آپریشن کا مطالبہ کردیا ، وفاقی وزیر زاہد خامد نے کہا کہ آج اجلاس کا پہلا دن ہے ایوان کو ہر معاملے پر اعتماد میں لیا جائے گا تاہم شیخ رشید ایوان سے واک آؤٹ کرگئے ۔

(جاری ہے)

پیر کو کارروائی شروع ہوگئی تو نکتہ اعتراض پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ کسی خود مختار ملک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ماضی میں افغانستان میں مداخلت کی تو پھر اس کی آگ ہمارے ملک میں لگی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 80ء کی دہائی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے جس کی آگ میں آج ملک جل رہا ہے مگر آج پھر شام میں مداخلت کرنے جارہے ہیں جو کہ اس ملک کے مفاد میں نہیں ہے یہاں اسلحہ کی خریدوفروخت کے معاہدے ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو اسلحہ ہم سپلائی کرنے جارہے ہیں وہ القاعدہ کے ہاتھ بھی لگ سکتا ہے ۔ ہمیں امن کی خاطر کام کرنا چاہیے اور مذاکرات کرنے چاہیں، لڑائی میں نہیں پڑنا چاہیے اگر اسلحہ سپلائی کرنے کا معاہدہ کرینگے تو حالات خراب ہوں گے کیونکہ ہم نے اچانک خارجہ پالیسی تبدیل کردی ہے ہمارے ملک میں پہلے ہی آگ لگی ہوئی ہے اور ہم دوسرے ملکوں میں بھی آگ لگانے یا بجھانے چل پڑے ہیں، ہم ایٹمی قوت ہیں مگر افسوس ہم کسی کے دباؤ میں آکر اپنے کندھوں پر دوسرے کی بندوق و توپ اٹھا لیتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو ایوان میں آکر وضاحت دینا ہوگی اور مذاکرات کے حوالے سے بھی بتانا ہوگا جبکہ سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب فیصلے کا وقت آگیا ہے اور فیصلہ کریں اور وزیراعظم آکر ازخود لیڈر کی حیثیت سے اعتماد میں لیں اور ابہام کو دور کریں بتائیں کیوں مذاکرات ختم ہوئے طالبان ہٹ دھرمی دکھارہے ہیے یا پھر حکومت کوتاہی برت رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام توانائی بحران بجلی اور مہنگائی کو بھول چکے ہیں وہ صرف تحفظ چاہتے ہیں، دہشتگردی کو ختم کیاجائے اور اب حکومت کو تحفظ کی خاطر فیصلہ کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کے ساتھ پوری قوم ہے اگر وزیراعظم دو ٹوک فیصلہ کردیں کیوں کہ عوام اب وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف دیکھ رہی ہے میں اب دیکھنا ہوگا کہ ہم کس جگہ کھڑے ہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے دس سالوں میں ہم کسی اور ملک کی آگ ملک میں دیکھ رہے ہوں ۔

پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر مخدوم شاہ محمود قریشی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ وزارت خارجہ اپنی پالیسی کو تبدیل کررہی ہے۔شام ، سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اگر پالیسی کو تبدیل کرنے کا تاثر درست ہے تو پھر اس معاملے پر حکومت پارلیمنٹ و اعتماد میں لے کیونکہ اس معاملے پر شدید تحفظات ہیں ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے اس معاملے پر ابہام جنم لے چکا ہے اس کو دور کیاجائے ۔

انہوں نے کہا کہ ایف سولہ طیارے شمالی وزیرستان میں استعمال ہورہے ہیں اس معاملے پر بھی وضاحت کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اجازت کیا حکومت نے دی ہے یا پھر ادارے ازخود کارروائیاں کررہے ہیں چار رکنی کمیٹی کی تفصیلات بھی سامنے نہیں آرہیں ۔ اس ساری صورتحال میں دہشتگردی کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں مگر اس معاملے پر اس بالادست ایوان کو اعتماد میں نہیں لیاجاتا ۔

انہوں نے کہا کہ مستحکم پاکستان اور پرامن پاکستان کے لیے اس حکومت کی مکمل حمایت کرنا چاہتے ہیں مگر اس معاملے پر ہمیں اعتماد میں تو لیا جائے ۔ شیخ رشید نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پوری دنیا کا میڈیا کہہ ر ہا ہے کہ ملک آگ و خون کی طرف جارہا ہے مگر وزیراعظم صاحب کیوں وضاحت نہیں کرتے اس وقت فوج شمالی وزیرستان جا چکی ہے انہوں نے کہا کہ ہماری جماعتیں مذاکرات کی حامی تھیں مگر آج 180 ڈگری پر یوٹرن لے لیا گیا ہے اب بتایا جائے کہ اصل صورتحال کیا ہے اور حکومت کیا کرنے جارہی ہے ۔

ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی سید آصف حسنین نے نکتہ ا عتراض پر کہا کہ مذاکرات شروع ہوئے مگر اس کے باوجود اس پر حملے کئے گئے اب تمام سیاسی عسکی قیادت ایک پیج پر اکٹھی ہوچکی ہے حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کے ساتھ اعتماد میں لے کر آپریشن کرے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران ، بھارت اور افغانستان سے دھمکیاں مل رہی ہیں اب وزیراعظم خطاب کریں اور فیصلہ کریں ۔

جماعت اسلامی کے رکن شیر اکبر خان نے ایوان میں کہا کہ حکومت مذاکرات کررہی ہے یا آپریشن اس معاملے پر قوم کو ا عتماد میں لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح مذاکرات کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی اب اگر آپریشن شروع کرنا ہے تو پھر بھی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جانی چاہیے اس موقع پر اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات ا جواب دیتے ہوئے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ بجٹ کے حوالے سے جتنی تجاویز ہیں وہ مجالس قائمہ کو بھجوائی جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ کل 22وزارتیں ہیں جن میں تقریباً گیارہ مجالس کے اجلاس ہو چکے ہیں اور ان کی تجاویز جا چکی ہیں۔ یکم جنوری سے مارچ تک ان کو پہنچنا چاہیے اور اس حوالے سے قواعد کا بھرپور خیال رکھا جائے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت خارجہ کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں ابھی اس اجلاس کا پہلا دن ہے جو بھی تحفظات ہیں یا اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کا جواب اس ایوان میں ضرور دیا جائے گا اس موقع پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے جس پر ایوان سے واک آؤٹ کرتا ہوں اور وہ ایوان سے چلے گئے ۔