امریکہ ‘ بھارت اور اسرائیل طالبان کیساتھ مذاکراتی عمل سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں‘ مولانا سمیع الحق،مذاکرات سے ہی ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے‘ ملک کی سیکولر قوتیں اس کی مخالفت چھوڑ دیں‘ مشرف کی غلط پالیسیوں کا آج خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ پرائی جنگ کا حصہ نہ بنتے تو آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے‘ طالبان کیساتھ مذاکرات بہت ہی نازک امتحان ہے اور ہم پل صراط پر کھڑے ہیں‘ انٹرویو

پیر 24 فروری 2014 05:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24فروری۔2014ء) جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ اور طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ملک میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں آپریشن کی نہیں مذاکرات کی ضرورت ہے‘ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل سمیت عالمی استعمار پاکستان میں امن نہیں چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان کیساتھ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں‘ ہمیں اس مرحلے پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کے اس عمل کو آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ مذاکرات سے ہی ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے‘ مشرف کی غلط پالیسیوں کا ہم آج خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ اگر وہ نائن الیون کے بعد یو ٹرن نہ لیتے اور امریکی جنگ کا حصہ نہ بنتے تو آج ملک دہشت گردی کی اس آگ میں نہ جل رہا ہوتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ کا آغاز کیا اور مشرف نے اس پرائی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس ایک غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے درو دیوار دہشت گردی سے ہل گئے اور وطن عزیز خود تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا شروع دن سے یہ موقف رہا کہ اس پرائی جنگ کا حصہ نہ بنا جائے لیکن مشرف سمیت پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی اپنی ان پالیسیوں کو نہیں بدلا‘ پارلیمنٹ کی قراردادوں کو نظرانداز کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے طالبان کیساتھ مذاکرات کا آپشن استعمال کیا ہے۔ طالبان کیساتھ مذاکرات بہت ہی نازک امتحان ہے اور اس وقت ہم پل صراط پر کھڑے ہیں۔ ہم سیاسی و مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر خلوص نیت سے جدوجہد کررہے ہیں اور ہمارا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس ملک میں امن قائم ہو اور اس کا واحد راستہ صرف اور صرف مذاکرات ہیں۔ امن کبھی جنگ کے ذریعے قائم ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔

آگ بجھانے کیلئے آگ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس پر پانی ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم ایک طویل عرصے سے اپنے حکمرانوں کو سمجھا رہے تھے کہ ملک میں جو آگ لگی ہوئی ہے اسے بجھانے کیلئے آپریشن کی نہیں مذاکرات کی ضرورت ہے لیکن گذشتہ تیرہ سالوں سے ہماری حکومتوں نے قوت کا استعمال کیا اس کے باوجود امن قائم نہ ہوا۔ اب اگر ہم نے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے تو اسے نیک نیتی سے آگے بڑھانا چاہئے اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل سمیت عالمی استعمار پاکستان میں امن نہیں چاہتا۔ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان مسائل سے نجات حاصل نہ کرسکے اور نہ ہی ایک مستحکم ریاست بن کر دنیا کے خطے میں موجود رہے۔ ان قوتوں کو بہت سے آلہ کار پاکستان سے بھی مل جاتے ہیں جو ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیکولر قوتیں بھی مذاکرات کی مخالف ہیں۔

انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کسی جماعت‘ کسی گروہ کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے اور ملک کا امن اسی سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ٹرائیکا امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ میں ان سیکولر قوتوں سے اپیل کروں گا کہ وہ مذاکراتی عمل کی مخالفت بند کردیں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں اس کی حمایت کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن مسائل کا حل نہیں‘ ہمیں ہر حال میں مذاکراتی عمل کو کامیابی کی منزل تک لے کر جانا ہے کیونکہ جب گھر میں آگ لگتی ہے تو ادھر ادھر نہیں دیکھا جاتا بلکہ ہر کوئی آگ بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔

ہم متحد ہوکر اس آگ پر قابو پاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف اور جے یو آئی کا مذاکراتی عمل سے الگ ہونا ایک غلط فیصلہ تھا جس سے ان کی مقبولیت میں کمی آئے گی۔ ہمارا ملک اب مزید تباہ کاریوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ طالبان اور حکومت دونوں کو تدبر سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم تبھی منزل تک پہنچ پائیں گے۔