کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پے در پے دہشت گرد حملوں کے بعد، حکومت پاکستان کی مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوگئی،حکومت کاحکومت عسکریت پسندوں کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کا فیصلہ، عسکریت پسندوں کے تشدّد کی کاروائیوں کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف پر دباوٴ بڑھ رہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مکالمہ کرنے کی پالیسی پر دوبارہ غور کریں‘ امریکی میڈیا

ہفتہ 22 فروری 2014 07:27

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء) اخبار ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پے در پے دہشت گرد حملوں کے بعد، حکومت پاکستان کی اْن کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، اور پاکستانی جیٹ طیاروں نے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے قبائیلی علاقوں میں ان جنگجوٴوں کی کمین گاہوں پر بمباری کی ہے، اخبار کا خیال ہے کہ طالبان ٹھکانوں پر ہوائی حملو ں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف حکومت جو اب تک اپنی طاقتور فوج کی طرف سے باغیوں کے خلاف زیادہ فیصلہ کْن کاروائی کرنے کے دباوٴ کے خلاف ڈٹی رہی ہے، بالآخر شائد اس بات پر تیار ہوگئی ہو کہ اْن کے خلاف زیادہ سخت رویّہ اختیار کرنا چاہئے۔

اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ یہ کاروائی پاکستانی طالبان کے اعلیٰ ترجمان کے اْس بیان کے ایک روز بعد کی گئی ہے، جس میں اس نے اس شرط پر جنگ بندی کرنے کی حامی بھری تھی کہ پہلے حکومت پاکستان اْن جنگجوٴوں کو ہلاک کرنا بند کردے، جو اْس کی تحویل میں ہیں۔

(جاری ہے)

ایک بیان میں طالبان نے دعویٰ کیا کہ اتوار کو 23 پاکستانی فوجی قیدیوں کو اس لئے ہلاک کیا گیا تھا، کیونکہ کراچی اور نوشہرہ میں حکومت کی قید میں 23 باغیوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

باغیوں کے ترجمان، شاہد اللہ شاہد نے کسی نا معلوم جگہ سے رپورٹروں کو بتایا، طالبان جنگ بندی کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ حکومت اس کے قیدیوں اور اس کے کارندوں کو ماورائے عدالت ہلاک کرنا اور گرفتار کرنا بند کر دے۔حکومت پاکستان اس کی تردید کر چْکی ہے کہ اس نے کسی باغی قیدی کو ہلاک کیا ہے۔اسی موضوع پر، ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا قبائیلی علاقوں پر پاک فضائیہ کی یہ بمباری شمالی وزیرستان کے اِس دْشوار گْزار علاقے میں طالبان کے خلاف ایک بھرپور حملے کا آغاز ہے، جو پاکستان اور افغانستان میں کاروائی کرنے والے طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے لئے محفوظ اڈّے کا کام دیتا آیا ہے۔

ایک پاکستانی سیکیورٹی عہدہ دار نے اس شرط پر کہ اْس کا نام صیغہ راز میں رہے۔اخبار کو بتایا کہ یہ فضائی کاروائی جنگجوں کے حالیہ تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں کی گئی ہے، کیونکہ مذاکرات کے عمل کے ہوتے ہوئے، حکومت اس قسم کے حملے برداشت نہیں کرے گی۔اخبار کی اطلاع کے مطابق، پاکستانی فضائیہ کی اس بمباری کا ہدف شمالی وزیرستان کے میر ولی ضلعے کے دیہات تھے اور مرنے والوں میں دونوں پاکستانی اور ازبک جنگجو شامل تھے۔

تاہم، اس کی کسی اور ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔اخبار نے پاکستانی عہدہ داروں سے جو اعدادوشمار جمع کئے ہیں۔ اْن کے مطابق، ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں پچھلے پانچ ماہ کے دوران 460 افراد کو ہلاک کیا جا چْکا ہے، جن میں 114 فوجی اور 38 پولیس والے شامل ہیں۔ اسی دوران حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرت کرنے کی کوشش کی تھی۔اخبار کہتا ہے کہ باغیوں کے تشدّد کی کاروائیوں کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف پر دباوٴ بڑھ رہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مکالمہ کرنے کی پالیسی پر دوبارہ غور کریں۔

بلکہ، اخبار کے بقول، جب 29 جنوری کو مسٹر نواز شریف نے امن مذاکرات کا اعلان کیا تو اس سے بْہت لوگوں کو حیرت ہوئی، کیونکہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ایسے اشارے دے رہی تھی کہ شمالی وزیرستان پر فوجی حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔