حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ ،حد بندیوں کے معاملے میں جو بھی گائیڈ لائن جاری کی جا ئے گی حکومت اس کے مطابق قانون سازی کرے گی ،پنجاب حکومت کی سپر یم کو رٹ کو یقین دھا نی ،کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے۔ بلدیاتی نظام میں خامیاں ہیں توعدالت کوکیا کرنا چاہئے کیاہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرناہوگاکہ انتخابات میں جومرضی ہوتارہے ،چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ریمارکس

ہفتہ 22 فروری 2014 07:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء)سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ،حکومت پنجاب نے تحریری طور پر عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کہ وہ حد بندیوں کے معاملے میں جو بھی گائیڈ لائن جاری کرے گی حکومت اس کے مطابق قانون سازی کرے گی ، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کوحلقہ بندیوں پر اعتماد نہیں تو انتخابات کیسے شفاف ہوں گے ، کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو عدالت کو مداخلت کا اختیار ہے۔

اگر بلدیاتی نظام سے الیکشن کمیشن مفلوج ہو تو پھر کیا کرنا چاہئے ، بلدیاتی نظام میں خامیاں ہیں توعدالت کوکیا کرنا چاہئے کیاہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرناہوگاکہ انتخابات میں جومرضی ہوتارہے ، صوبوں کو آئینی خودمختاری دیتے ہوئے یہ بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ وہ آئینی کمانڈ کی پابندی کرے گی،انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

جسٹ میثاق جمہوریت کی شق 10 کے تحت بلدیاتی انتخابات صوبائی الیکشن کمیشن نے کروانا تھے۔ سیاسی رہنماوٴں نے 18ویں ترمیم میں مثبت قلابازی لگائی۔ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ، صوبے بلدیاتی قوانین کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے اختیار سے کیوں محروم کر رہے ہیں، عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ بلدیاتی قوانین میں شامل حلقہ بندیوں کی دفعات آئینی کمانڈ سے مماثلت رکھتی ہے یا برعکس ہے جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے ہیں صوبائی حکومت کو مرضی کی حلقہ بندیوں کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

ایک آرٹیکل کو بچاتے ہوئے ملک ہی ٹوٹ گیا تھا کہیں بلدیاتی انتخابات کا میچ فکس تو نہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ اگر حکومت حاصل اختیارات کا درست استعمال نہ کرے تو عدالت کو مداخلت کا اختیار حاصل ہے ،اگر حد بندیاں کرنے والا ادارہ جانبدار ہو تو شفاف الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفیٰ رمدے نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے حکومت سے ہدایات حاصل کر لی ہیں جس کا کہنا ہے کہ عدالت کیس میں جو بھی گائیڈ لائن جاری کرے گی حکومت اس کے مطابق قانون سازی کرے گی ،عدالت نے حکومت کی اس یقین دہانی کو سراہتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سے کہاکہ یہ آپ تحریری طور پر عدالت میں جمع کرادیں ۔

اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیوں کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے۔عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ جہاں قانون خاموش ہو وہاں الیکشن کمیشن آئینی مینڈیٹ کے تحت انتخابی عمل انجام دے سکتا ہے۔ حلقہ بندیاں بھی انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔عدالتی معاون خواجہ حارث کو روٹسرم پر بلاتے ہوئے عدالت نے ان سے استفسار کیاکہ کیا 1974کا حلقہ بندی ایکٹ بلدیاتی حکومتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے تو انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس معاملے میں آئین خاموش ہو تو وہ اختیارات استعمال کرسکتا ہے اور یہ بات ورکرز پارٹی کیس میں واضح کر دی گئی ہے ۔

خواجہ حارث کے بعد اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون بنانا صوبائی حکومت کا اختیار ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ چاہے وہ حد بندیوں میں جتنی چاہے جھاڑو پھیر دے ۔سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ 18ویں ترمیم کا مقصد صوبوں کو خود مختاری دینا تھا اسی وجہ سے آرٹیکل 140Aآئین میں شامل کیا گیا اور بلدیاتی سسٹم فراہم کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا گیا ،سسٹم فراہم کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں اور حد بندیاں اس سسٹم کا حصہ ہیں۔

الیکشن کمیشن کو صرف الیکشن کرانے کا اختیار دیا گیا ہے تاکہ شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے ۔ فاروق نائیک نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کا بنیادی مقصد صوبائی خود مختاری، مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبوں کو آئینی خودمختاری دیتے ہوئے یہ بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ وہ آئینی کمانڈ کی پابندی کرے گی،انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ لیکن قوانین صوبائی حکومت نے فراہم کرنے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے جس کی تشریح عدالت کا اختیار ہے۔ فارووق ایچ نائیک نے میثاق جمہوریت کی کاپی عدالت میں پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی شق 10 کے تحت بلدیاتی انتخابات صوبائی الیکشن کمیشن نے کروانا تھے۔ سیاسی رہنماوٴں نے 18ویں ترمیم میں مثبت قلابازی لگائی۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ، صوبے بلدیاتی قوانین کے ذریعے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے اختیار سے کیوں محروم کر رہے ہیں۔ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ بلدیاتی قوانین میں شامل حلقہ بندیوں کی دفعات آئینی کمانڈ سے مماثلت رکھتی ہے یا برعکس ہے۔ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ 140 اے کے تحت صوبوں نے الیکشن کمیشن کو ایک نظام دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر بلدیاتی نظام سے الیکشن کمیشن مفلوج ہو تو پھر کیا کرنا چاہئے ، بلدیاتی نظام میں خامیاں ہیں توعدالت کوکیا کرنا چاہئے جب لوگوں کوحلقہ بندیوں پر اعتماد نہیں تو انتخابات کیسے شفاف ہوں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مقصد نظر آ رہا ہے کہ انتخابات کے التواء کا بہانہ مل جائے۔ کہیں بلدیاتی انتخابات کا میچ فکس تو نہیں۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ مقصد نظر آ رہا ہے کہ بیس تک بلدیاتی انتخابات ہی نہ ہوں ۔چیف جسٹس نے مزید کہاکہ اگر حد بندیاں کرنے والی باڈی جانبدار ہو اور عوام کا اس پر اعتماد نہ ہو تو الیکشن کمیشن کس طرح شفاف انتخابات کرا سکتا ہے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ پھر آئین میں ترمیم کریں تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالت کا اختیار نہیں اس کا کام آئین اور اس کے تحت دیئے گئے اختیارات کی تشریح کرنا ہے تاہم اگر اختیارات کا استعمال درست نہ ہو تو عدالت کو مداخلت کا آئینی اختیار حاصل ہے۔

جسٹس عظمت نے کہاکہ شفاف الیکشن صرف اسی صورت میں ممکن ہیں جب حد بندیوں کا عمل شفاف ہو ۔جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست گذار اظہر صدیق پیش ہوئے اور کہاکہ حد بندیوں کے حوالے سے انہوں نے لاہورسپریم کورٹ نے درخواست گزار اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر حلقہ بندیوں سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ، جبکہ پنجاب کی حلقہ بندیوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری رہے گی۔

سپریم کور ٹ نے حد بندیوں سے متعلق سندھ حکومت کی اپیل پر وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیلوں پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت تین مارچ تک ملتوی کردی ہے۔