یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ سارااختیار فوج کے پاس ہے او ر حکومت بے اختیار ہے، پروفیسر ابراہیم ، مشرف نے 2004ء میں یہ کہہ کر آپریشن کا آغاز کیا کہ یہ چند سو افراد ہیں جو چند دنوں میں ختم ہو جائیں گے لیکن آج وہ چند سو افراد ہزاروں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور چند ہفتے کئی سال بن گئے ہیں، وزیراعظم کہتے اختیارات اُن کے پاس ہیں لیکن درحقیقت اختیارات کا مالک کوئی اور ہے،دونوں کمیٹیوں کو ختم کرکے فوج اور طالبان براہ راست مذاکرات کریں، اس طرح شاید امن کا کوئی راستہ نکل آئے،پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات موجود ہیں اور آئین پر جید علماء کرام اور بزرگ سیاستدانوں نے دستخط کئے ہیں، آئین غیر اسلامی نہیں ہے اگر آئین میں کوئی کمی ہے تو وہ دور کی جاسکتی ہے، خطبہ جمعہ سے خطاب

ہفتہ 22 فروری 2014 07:24

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء)جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ سارااختیار فوج کے پاس ہے او ر حکومت بے اختیار ہے۔ مشرف نے 2004ء میں یہ کہہ کر آپریشن کا آغاز کیا کہ یہ چند سو افراد ہیں جو چند دنوں میں ختم ہو جائیں گے لیکن آج وہ چند سو افراد ہزاروں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور چند ہفتے کئی سال بن گئے ہیں۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ اختیارات اُن کے پاس ہیں لیکن درحقیقت اختیارات کا مالک کوئی اور ہے۔ دونوں کمیٹیوں کو ختم کرکے فوج اور طالبان براہ راست مذاکرات کریں، اس طرح شاید امن کا کوئی راستہ نکل آئے۔پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات موجود ہیں اور آئین پر جید علماء کرام اور بزرگ سیاستدانوں نے دستخط کئے ہیں۔

(جاری ہے)

آئین غیر اسلامی نہیں ہے اگر آئین میں کوئی کمی ہے تو وہ دور کی جاسکتی ہے۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے جامعہ حدیقة العلوم المرکز اسلامی پشاور میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ حکومت آئین کے مطابق اسلامی شریعت کے نفاذ کا اعلان کرے تو ملک میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔ پہلے مشرف اور پھر زرداری نے آپریشن کئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلابلکہ بدامنی میں اضافہ ہوا۔ ا ب اگر نواز شریف بھی آپریشن کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ملک میں امن کیسے قائم ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ آپریشن او رخود کش حملوں کے ذریعے امن نہیں آ سکتا بلکہ امن بات چیت کے ذریعے آئے گا۔ مہمند ایجنسی واقعہ کے بعد تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ کمیٹیاں ملاقات کریں گی تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔انہوں نے کہا کہ امن لانا حکومت اور حکومتی کمیٹی پر منحصر ہے ۔ طالبان کمیٹی نے کئی دفعہ وزیر اعظم ، چیف آف آرمی سٹاف اورڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن حکومتی کمیٹی نے اس کا اہتمام نہیں کیا ۔

ہم چاہتے ہیں کہ وزیرا عظم اور دیگر افراد سے ملاقات کرکے مذاکرات کے عمل میں ان سے تعاون لیں اور اگر اُن کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہو تو ہم انہیں تعاون دیں۔ اگر حکومتی کمیٹی وزیر اعظم اور دوسرے لوگوں سے ملاقات کا اہتمام نہیں کر سکتی تو پھر وزیر اعظم ، حکومتی کمیٹی اور فوج بتائے کہ امن کیسے آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مطالبہ ہے کہ طالبان یک طرفہ جنگ بندی کریں جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے لیکن حکومت ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ قیدیوں کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے مذاکرات کے لئے شرط لگانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزید آپریشنوں سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔