بلوچستان سے 8 لاپتہ افراد کے اغوا کا الزام انٹیلی جنس ایجنسیوں پر ہے، اہلکار مجرم ثابت ہوئے تو ان کی کسی صورت پشت پناہی نہیں کی جائے گی، وزارت دفاع ، اجتماعی قبروں کے افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ ہونے دیا جائے پھر اسے بھی دیکھا جائے گا،جسٹس امیر ہانی مسلم ، بلوچستان بدامنی کیس کی مزیدسماعت سات مارچ تک کے لیے ملتوی

جمعہ 21 فروری 2014 07:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21فروری۔2014ء )وزارت دفاع نے بلوچستان بدامنی کیس میں سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے اپنے خط میں کہا ہے کہ بلوچستان سے 8 لاپتہ افراد کے اغوا کا الزام انٹیلی جنس ایجنسیوں پر ہے، اہلکار مجرم ثابت ہوئے تو ان کی کسی صورت پشت پناہی نہیں کی جائے گی۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کر رہا ہے، سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاورنے لاپتہ افراد سے متعلق وزارت دفاع کا خط پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں پر 8 لاپتا افراد کے اغوا کا الزام ہے جن میں سے 2 افراد ڈاکٹر ندیم بلوچ اورعبدالغفار کوہلو کے فراری کیمپ میں ہوتے تھے، میجر سیف اور میجر منیر نامی 2 اہلکاروں پر لاپتا افراد کے اغوا کا الزام ہے، ان دونوں اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی اور اگر یہ مجرم ثابت ہوئے تو ان کی کسی صورت پشت پناہی نہیں کی جائے گی۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے عدات سے استدعا کی کہ بلوچستان اور کراچی میں جگہ جگہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں،عدالت عظمیٰ اجتماعی قبروں کا معاملہ بھی دیکھیں گے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ اجتماعی قبروں کے افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ ہونے دیا جائے پھر اسے بھی دیکھا جائے گا، اس موقع پر سربراہ لاپتا افراد تحریک نصر اللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے نوجوان کاوٴ خان کو ایک مرتبہ منظر عام پر لایا گیا لیکن وہ اپنے گھر نہیں پہنچا جس پر ڈی ایس پی سی آئی ڈی نے جواب دیا کہ کاو خان مقامی عدالت کے سامنے پیش ہواجس کے بعد اس کا کچھ پتا نہیں۔

عدالت نے قرار دیاہے کہ چونکہ ٹریبیونل لاپتہ افراد سمیت دیگر معاملات بارے فیصلہ آنے پر مزید سماعت کریں گے بہتر ہوگا کہ ان کی بھی رپورٹ آجائے عدالت نے کیس کی مزیدسماعت سات مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔