سپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر ‘فیڈرل سروسز ٹربیونلز کے چیئرمین اور ممبران کی عدم تعیناتی کا نوٹس لے لیا،حکومت سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب،وفاقی حکومت اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہی،جسٹس میاں ثاقب نثار،مستقل چیف الیکشن کمشنر نہ ہونے کی وجہ سے جسٹس ناصرالملک کو سپریم کورٹ کے اہم ترین مقدمات کو چھوڑ کر الیکشن کمیشن جانا پڑتا ہے،بہتر ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرے بصورت دیگر ہم کوئی حکم جاری کرنے پر مجبور ہوں گے‘ریمارکس،حکومت کو ہماری پریشانی‘ تحفظات اور اسکی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں،اٹارنی جنرل کو حکم

جمعرات 20 فروری 2014 07:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20فروری۔2013ء) سپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر ‘فیڈرل سروسز ٹربیونلز کے چیئرمین اور ممبران کی عدم تعیناتی پر نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کی ہے اورسخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہی جس کی وجہ سے آئینی اور قانونی پوسٹوں پر تاحال مستقل افسران کا تقرر نہیں کیا گیا‘ مستقل چیف الیکشن کمشنر نہ ہونے کی وجہ سے جسٹس ناصرالملک کو سپریم کورٹ کے اہم ترین مقدمات کو چھوڑ کر الیکشن کمیشن جانا پڑتا ہے‘ قائمقام چیف الیکشن کمشنر کی تقرری عارضی ہوتی ہے مگر چھ ماہ سے مستقل چیف الیکشن کمشنر مقرر نہیں کیا گیا،ایف ایس ٹی میں چیئرمین اور ممبران کی عدم تعیناتی سے ہزاروں مقدمات زیر التواء ہیں‘ ہائیکورٹس میں مقدمات کا رش بڑھ گیا ہے‘ بہتر ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرے بصورت دیگر ہم کوئی حکم جاری کرنے پر مجبور ہوں گے‘ حکومت ہمارے اور اپنے لئے مشکلات پیدا نہ کرے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز آئی ایس آئی کے 16 ویں گریڈ کے ملازم غلام رسول کی ملازمت کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دئیے۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے ان تمام سرکاری اداروں کی فہرست بھی طلب کی ہے جہاں اہم پوسٹوں پر تاحال کسی مستقل افسر کی تعیناتی نہیں ہوسکی ہے۔ حساس ادارے کے ملازم کے مقدمے کی سماعت جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس افضل خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز شروع کی تو اس دوران اٹارنی جنرل سلمان بٹ‘ پارلیمانی سیکرٹری اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ یہ معاملہ آپ ہی نمٹا سکتے ہیں۔ 2013ء سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایف ایس ٹی فعال نہیں ہے‘ بہت سے مقدمات ہائیکورٹس آتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ متعلقہ فورم جو قانون نے دے رکھا ہے وہ نہیں ہے۔ آرٹیکل 212 کے تحت ٹریبونل موجود نہیں ہے‘ ایک بہت بڑی تعداد میں ہائیکورٹس میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یہ تشویش ناک صورتحال ہے۔

حکومت سے پتہ کرکے دیں کہ کب یہ ٹریبونل قائم ہوں گے۔ آئین میں کب ترمیم ہوگی۔ حکومت کئی اہم قانونی معاملات کو حل نہیں کررہی خاص طور پر ہمارے لئے پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری بھی نہیں ہوسکتی۔ اگست میں فخرالدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دیا‘ چھ ماہ ہوگئے لیکن مستقل چیف الیکشن کمشنر مقرر نہیں کیا گیا‘ ابھی تک سپریم کورٹ کی ججز کو قائم مقام بناکر کام لیا جارہا ہے۔

قائم مقام تو مختصر مدت کیلئے ہوتا ہے۔ حکومت کو ایک ماہ کا وقت دے رہے ہیں۔ کیا حکومت اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتی ہے یا نہیں یا پھر ہم کوئی حکم جاری کریں۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی انتظامی ذمہ داری ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کام شروع ہوچکا ہے‘ جلد ہی تقرری بھی کردی جائے گی۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ جلد سے جلد کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے پر کافی وقت لگادیا جائے گا۔

ہم نے کئی آئینی خلاف ورزیوں پر بات کی ہے مگر یہ بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ آپ رپورٹ اور ٹائم فریم دیں۔ اے جی نے بتایا کہ خواجہ آصف کیس کے فیصلے کے مطابق تقرریاں کی جارہی ہیں۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ہم آپ کے ادارے کی سہولت کیلئے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے احکامات سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ اے جی نے کہا کہ کوشش ہے کہ اس طرح کے مسائل پیدا نہ ہوں‘ تفصیلات دیں گے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کتنے اداروں میں ابھی تک تقرریاں نہیں ہوئی ہیں‘ آئینی و قانونی مسئلہ بتایا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بتائے‘ پارلیمانی امور سیکرٹری بتائے کہ ابھی تک مستقل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیوں نہیں ہوا ہے۔ جسٹس ناصرالملک کو بنچ نمبر 2چھوڑ کر الیکشن کمیشن جانا پڑتا ہے جس سے ڈھیروں مقدمات زیر التواء رہ جاتے ہیں آپ پلیز اپنی حکومت کو ایڈوائس کریں کہ وہ ان اداروں میں جلداز جلد تقرریاں کرے۔

آپ چیف لاء آفیسر ہیں آپ کو بتانا چاہئے۔ آرڈر میں عدالت نے لکھوایا کہ پارلیمانی سیکرٹری اور اے جی پیش ہوئے اور کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے آرٹیکل 213 کے تحت اپوزیشن سے مشاورت کریں گے۔ جس ادارے کو دیکھتے ہیں اس کا مستقل سربراہ نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا جلداز جلد تقرر کیا جائے۔ اٹارنی جنرل اس حوالے سے جامع جواب داخل کریں کہ حکومت کیا اقدامات کررہی ہے اور تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کریں۔

عدالت نے مزید ہدایت کی ہے کہ اٹارنی جنرل متعلقہ ڈویژن سے رابطہ کریں۔ آئینی و قانونی پوسٹیں اب تک کیوں خالی ہیں۔ اے جی نے کہا کہ میں عدالت کا حکم سمجھ گیا ہوں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ حکومت کو ہماری پریشانی‘ تحفظات اور اس کی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔ مزید سماعت 4 مارچ کو ہوگی۔