مولانا فضل الرحمان کا وزیراعظم کے نام مراسلہ ، آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں مزید ترامیم کا مطالبہ، موجودہ آئین معینہ مدت کیلئے تھا ، کشمیری عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے اس میں کشادگی اور مزید بااختیار بنایا جائے، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششوں کو مزید تیز کیا جائے، دونوں جانب مسئلہ کشمیر کے باعث بے چینی پائی جاتی ہے، چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی

جمعرات 20 فروری 2014 07:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20فروری۔2013ء)پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین و جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم میاں نوازشریف کے نام مراسلہ میں آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں مزید ترامیم کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ موجودہ آئین معینہ مدت کیلئے تھا جبکہ کشمیری عوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے اس میں کشادگی پیدا کی جائے اور مزید بااختیار بنایا جائے، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے، دونوں جانب مسئلہ کشمیر کے باعث بے چینی پائی جاتی ہے۔

بدھ کے روز پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین و جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے وزیراعظم میاں نواز شریف نے نام مراسلہ لکھا ہے جس میں اپنے دورئہ آزاد کشمیر، وزیراعظم آزاد کشمیر و دیگر اکابرین سے ہونیوالی ملاقاتوں کی روداد کا تذکرہ بھی کیاہے۔

(جاری ہے)

ترجمان جان اچکزئی کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اپنے ایک خط لکھا کہ میں نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ملاقات کی ان کے ساتھ آزاد کشمیر کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی ہوا ۔

انہوں نے لکھا ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت مجموعی طور پر عبوری آئینی ایکٹ1947کے متعلق خیال ظاہر کرتی ہے موجودہ حالات میں عوامی خواہشات اورریاست آزاد کشمیر کی ترقی اور خوشحالی میں موثر اور مدد گار نہیں ہے اس لئے اسے مزید عوامی خواہشات کے مطابق مربوط نظام بنایا جائے۔ان میں آزاد جموں کشمیر کونسل کے اختیارات،تقسیم کاراور تشکیل مزیدترامیم کے متقاضی ہے تاکہ آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان مزید معاملات خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے جائیں۔

انہوں نے اپنے خط میں وزیر اعظم کو مزید لکھا ہے کہ یہ قانون اس وقت کے اکاء برین نے ایک معینہ مدت کے لئے عارضی نظم و نسق چلانے کے لئے بنایا تھا اور وہ ابھی تک وہ چھوٹی ترامیم کے ساتھ لمبے عرصے سے نافذالعمل ہے لہذٰا تجویز اور سفارش کی جاتی ہے کہ کوئی کمیٹی تشکیل دیکر اس معاملے پر غور کیا جائے ۔جس سے آزاد کشمیر کے عوام کے جائز مطالبات حل ہوجائیں۔

انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں طوالت کی وجہ سے نوجوانوں میں سر حد کے دونوں اطراف بے چینی پائی جاتی ہے وہ زیادہ عرصہ تک پچھلی نسلوں کی طرح گومگوں کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے ۔وہ دنیا کے بدلتے حالات اور آگاہی کے باعث اس مسئلے کا جلد سے جلد حل چاہتے ہیں۔لہٰذا فیض شناسی اوردراندیشی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی توانائیاں اور جدوجہد کو تیز کرنا ہوگااور ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ تمام معاملات طے کر کے اس مسئلے کو مرکزی حیثیت دینی ہوگی۔