پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کی 1992ء گارنٹی لئے اور کریڈٹ رکھے بغیر حوالے کرنے کے معاملے پر ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت، معاملہ قومی احتساب بیورو کو بھجوانے کی ہدایت،ہمارے ٹرانسفارمر بک جائیں تو ادارہ کا خسارہ ختم ہوجائے گا،ایچ ای سی حکام،ہماری ٹینک شکن رائفلیں فوج نے خریدنے سے انکار کر دیا ہے،ایم ڈی پاک مشینری ٹولز فیکٹری

بدھ 19 فروری 2014 03:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی )کی ذیلی کمیٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے 1992ء کے دور حکومت کے دوران مختلف اداروں کی نجکاری کرنے کے بعد اداروں کی بغیر گارنٹی لئے اور کریڈٹ رکھے بغیر حوالے کرنے کے معاملے پر ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے معاملہ قومی احتساب بیورو کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے ۔

منگل کے روز پبلک ا کاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر شفقت محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ اجلاس کے دوران وزارت صنعت و پیداوار کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان سٹیٹ انجینئرنگ کے 12یونٹس میں سے 8یونٹ کی نجکاری کی جاچکی ہے ۔ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس خسارے میں ہے ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کے حکام نے بتایا کہ ہم نے کچھ ٹرانسفارمرز تیار کئے ہیں جن سے لائن لاسز میں کمی ہوگی اور اس حوالے سے پشاور اور پیسکو کے ساتھ رابطہ کیا ہوا ہے اگر ہمارے ٹرانسفارمر یہ ادارے خرید لیتے ہیں تو ہمارا خسارہ ختم ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

آڈٹ حکام نے بتایا کہ اس ادارے کو حکومت نے ٹرانسفارمر تیار کرنے کیلئے نہیں کہا انہوں نے خود تیار کئے ہیں۔ وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے بتایا گیا کہ وزارت کے چوبیس ادارے خسارے میں جارہے ہیں ۔ کمیٹی کو ایم ڈی پاک مشینری ٹولز فیکٹری احمد نے بتایا کہ یہ ادارہ 2009ء سے خسارے میں جارہا ہے ہم دفاعی آلات بناتے تھے جو کہ بیرون ملک فروخت کئے جاتے تھے اب سری لنکا بھی ہم سے دفاعی ہتھیار نہیں خریدتا ۔

انہوں نے بتایا کہ فیکٹری نے ٹینک دو سو ٹینک شکن رائفلیں بنائی ہیں ان میں سے پولیس اور رینجرز کو 80رائفلز فروخت کی گئی ہیں جبکہ پاک آرمی نے یہ رائفلیں لینے سے انکار کردیا ہے، ہمارے سٹاک میں اس وقت 120رائفلیں موجود ہیں پی اے سی سفارش کرکے ان رائفلوں کو بکوا دے ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ فیکٹری نے یہ رائفلیں خود تیار کی ہیں اور یہ کسی کا آرڈر نہیں تھا ۔

ہیوی میکینکل کمپلیکس کے حکام نے بتایا کہ ایچ ایم سی کی سالانہ 2 ارب 60کروڑ روپے کی سیل ہے اور منافع 3 کروڑ روپے ہے ۔ پچھلے نو سال سے ایچ ایم سی منافع میں جارہی ہے حکومت کی فیکٹری ہے لیکن حکومتی ادارے ہمیں کنٹریکٹ نہیں دیتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دفاعی ْشعبہ سے تعاون کرتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا 25ہزار ٹن کا شوگر پلانٹ پاکستان میں لگایا ہے جو صحیح کام کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کا بحران ہے اور ایسا کوئی ادارہ نہیں جو پاور پلانٹ بنا سکے ہم اس حوالے سے کام کررہے ہیں، حکومت نے گلگت میں ہائیڈرو پاور پلانٹ کا معاہدہ کیا ہوا ہے جو ہم لگائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم 85فیصد نجی سیکٹر کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری نجکاری نے بتایا کہ بورڈ کی منظوری کے بعد ہی نجکاری کا عمل آگے بڑھایا جاتا ہے کمیٹی کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ 1992ء میں بہت سے ادارے تھے جن کی گارنٹی یا کریڈٹ لئے بغیر ہی نجکاری کردی گئی ۔

کنوینر کمیٹی شفقت محمود نے کہا کہ ایسے جتنے بھی ادارے ہیں جن کی نجکاری کے موقع پر گارنٹی اور کریڈٹ لئے بغیر ہی حوالگی کی گئی اور جن کی بعد میں رقوم کی ریکوری پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا ابھی تک ریکوری نہیں ہوسکی ان کے ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ دی جائے ایسے تمام کیسز نیب کو بھیجے جائیں ۔ وزارت نجکاری کے حکام نے کہا کہ تمام ذمہ داروں کا نام دستاویزات پر ہوں گے ان کے نام آئندہ اجلاس میں دے دیئے جائینگے ، شفقت محمود نے کہا کہ 1992ء میں ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی رقم ایک بڑی رقم ہوتی تھی اس وقت ڈالر کی ویلیو 30روپے تھے مگر آج ڈالر 100روپے سے بھی بڑھ گیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :