طالبان سے رابطوں میں دشواریاں پیش آرہی ہیں، وزیر اعظم کا حکومتی کمیٹی کو مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی ہدایت کرنا خوش آئند ہے،پروفیسر محمد ابراہیم،ہم اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم حالیہ ڈیٹ لاک ختم کرنے کے خوہاں ہیں،مولانا سید یوسف شاہ ،دونوں کمیٹیوں میں غیر رسمی رابطے قائم ہیں اور جلد مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں،رحیم اللہ یوسفزئی

بدھ 19 فروری 2014 03:21

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء)جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ طالبان سے رابطوں میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ وزیر اعظم کا حکومتی کمیٹی کو مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی ہدایت کرنا خوش آئند ہے۔مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے دونوں فریقوں فوج اور طالبان کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

کراچی دھماکے اور مہمند ایجنسی کے واقعے نے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے تاہم ملک میں امن کی خاطر ہر حد تک جائیں گے۔طالبان کی طرف سے ان کے زیر حراست افراد کے قتل کا دعویٰ اور سیکورٹی اداروں کی طرف سے اس سے انکار، کا قبول کرنا یا اسے مسترد کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ۔ اس کی مناسب تحقیق دونوں کمیٹیاں مل کر ہی کرسکتی ہیں اور جس کی بھی زیادتی ثبوت تک پہنچے دونوں کمیٹیوں کو متفقہ طور پر اس کی مذمت اور درست رویہ اختیار کرنے کو کہہ سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

میڈیا کے دفاتر پر حملے قابل مذمت ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز اسلامی سے جاری کئے گئے بیان اور بعدازاں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ مہمند واقعے کے بعد مذاکرات کے عمل کو شدید دھچکا لگا ہے ۔ واقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ عین اس وقت جب فائر بندی کا اعلان متوقع تھا طالبان کو اس قسم کی کاروائیوں سے گریز کرنا چاہئے تھا۔

رابطوں میں مشکلات کی وجہ سے مکمل بات نہیں ہوپارہی۔ حکومتی کمیٹی پیرکے روزاکوڑہ خٹک میں ہم سے ملاقات کرلیتی تو ڈیڈلاک پیدا نہ ہوتا۔اللہ نے چاہا تو یہ ڈیڈلاک جلد ختم ہوگا اور مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہوجائے گا۔انہوں نے کراچی میں نجی ٹی چینلز آج نیوز، وقت ٹی وی،نوائے وقت اور اے آر وائی ٹی وی کے دفاتر پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادیٴ صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں اورمیڈیا ہاوٴسز کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔

انہوں نے پشاور میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے اور ایک میجر کی شہادت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔رکن طالبان کمیٹی پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ انہیں طالبان سے رابطہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور طالبان کو آپس میں بھی رابطہ میں مشکلات ہو رہی ہیں۔ طالبان سے رابطہ ہونے پر ایف سی اہلکاروں کے قتل پر میڈیا اور عوام کے سوالات کا جواب طلب کروں گا۔

منگل کے روز رکن طالبان کمیٹی پروفیسر ابراہیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایف سی اہلکاروں کی شہادت پر میڈیا اور عوام کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس میں ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت اور ان کی لاشوں کا منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا اور اگر ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کا واقع ایک ماہ قبل پیش آیا تو اسے اب کیوں منظر عام پر لایا گیا اور اس واقعہ کے پس پردہ غائبی عناصر شامل ہیں ۔

ان تمام سوالات کا جواب طالبان سے طلب کیا جائے گا ۔پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے تازہ صورت حال پر طالبان کمیٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور طالبان کمیٹی حکومت جواب کی منتظر ہے ۔طالبان سے رابطہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور کبھی ٹیلی فون پر رابطہ ہو جاتا ہے تو کبھی نہیں ہوتا ہے۔ اگر طالبان سے رابطہ ہو بھی جائے تو ان کا جواب بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ آپس میں رابطہ کررہے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتدر قوتوں سے ملاقات کے لئے وقت مانگا تھا لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پروفیسر ابراہیم نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے وہ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں سے ملاقات کریں اور ان کا موقف معلوم کریں تا کہ صورت حال کو بہتر بنایا جا سکے۔طالبان مذاکراتی ٹیم کے رکن اور جمیعت علماء اسلام س خیبرپختون خواہ کے امیر مولانا سید یوسف شاہ نے کہا ہے کہ ہم اور طالبان کی مذاکراتی ٹیم حالیہ ڈیٹ لاک ختم کرنے کے خوہاں ہیں۔

حکومت کی مذاکراتی ٹیم لچک کا مظاہرہ کریں،ہڑدھرمی ختم کریں اور مذاکراتی عمل کو شروع کریں ۔طالبان مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات سے بار بار انکار افسوس ناک ہے اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتے تو بھر ہم بھی بات نہیں کریں گئے۔امن کے قیام کے لیے بات چیت کے دروازے بند نہیں ہونے چاہیے۔تحریک طالبان پاکستان اب بھی مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔طالبان مذاکراتی ٹیم کے رکن اور جمیعت علماء اسلام س خیبرپختون خواہ کے امیر مولانا سید یوسف شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی عوام امن کی متالشی ہے مولانا سمیع الحق اور طالبان مذاکراتی ٹیم نے اخلاص اور سنجیدگی سے ساتھ دن رات محنت کرکے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے بھر پور اندازمیں کام کیامگر چند اندرونی و بیرونی قوتیں امن کے خلاف مسلسل شازشو ں میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی ان کی طالبان شوری اور طالبان قیادت سے بات ہوئی ہے وہ بھی امن کے قیام کے لیے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔مگر حکومتی مذاکرات ٹیم مسلسل ملاقات کرنے سے انکار ی ہے اور بار بار پیغامات دینے کے باوجود حکومتی مذاکراتی ٹیم ہڈدھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی مذاکرات ٹیم اپنی نامانو کی روش پر قایم رہی تو ان کو بھی ان سے ملاقات کا شوق نہیں مگر ہم امن و قوم کے مفاد میں اور مولانا سیمع الحق اس خون ریزی کو ختم کرنے کے لیے امن کے قیام کی کوششیں جاری رکھے گئے۔

طالبان کی طرف سے نامزدہ کردہ کمیٹی کے رکن یوسف شاہ نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور ساتھ ہی انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر مذاکرات نہ ہوئے تو ملک میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ مذاکرات تعلطل کا شکار ہو گئے ہیں، کہا ہے کہ دونوں کمیٹیوں کے درمیان غیر رسمی رابطے قائم ہیں اور جلد مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں، کراچی میں پولیس اور رینجرز پر دو حملوں اور مہمند ایجنسی میں 23 اہل کاروں کو قتل کرنے پر وزیر اعظم نے کہا کہ یہ امن کے لیے دھچکا ہے لیکن ان واقعات کے باوجود وہ مایوس نہیں ہیں اور چاہتے ہیں مذاکرات جاری رہیں ۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کمیٹی کے رابطہ کار یوسف شاہ نے کہا کہ حکومتی کمیٹی مذاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انھوں نے کہا کہ: ’جنگ بندی کے بارے میں جو اعلان کیا تھا طالبان اس پر قائم ہیں لیکن اعلان تب ہوگا اور تمام معاملات تب حل ہوں گے جب ہم مل کر بیٹھیں گے۔حکومتی کمیٹی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر وہ ہم سے ملنے کے خواہش مند نہیں توہم بھی اس کی خواہش اور شوق نہیں رکھتے۔

دہشت گردی کی وارداتوں پر یوسف شاہ نے کہا کہ ’واقعات‘ تو ہوتے رہتے ہیں اور اگر حکومت اور طالبان کمیٹی اس طرح ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں تو واقعات میں اضافہ ہو گا۔مہمند ایجنسی کے طالبان گروپ کی کاروائی پر بات کرتے ہوئے طالبان کی کمیٹی کے رابطہ کار یوسف شاہ نے بتایا کہ طالبان کی سیاسی شوری کے چیئرمین قاری شکیل تحریک طالبان مہمند ایجنسی کے نائب امیر بھی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ منگل کو انھوں نے باقی گروپوں سے بات کی ہے ایک دو کے علاوہ باقی تمام گروپوں نے اتفاق کیا ہے کہ جو فیصلہ تحریک طالبان نے کیا وہ سب اس کے پابند ہوں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان نے ایف سی اہلکاروں کو ردعمل میں مارا ہے۔حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ نے انٹرویو میں کہا کہ حکومت کی بنائی ہوئی مذاکراتی کمیٹی برقرار ہے اور مشاورت اور غیر رسمی رابطے جاری رکھے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جنگ بندی کا اعلان ہوگیا تو میرا خیال نہیں کہ پورے ملک میں ایسا کوئی واقعہ پیش آئے گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومتی کمیٹی نے طالبان اور ان کی قائم کردہ کمیٹی تک اپنی شرائط اور مطالبے پہنچائے ہیں؟ اس کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ کوشش کی جائے گی کہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی تک یہ شرائط پہنچائی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی ٹیم پر کوئی الزام نہیں لیکن فیصلے طالبان کی شوری کرتی ہے۔رحیم اللہ نے کہا کہ مہمند ایجنسی کی طالبان کی شاخ کے سربراہ عمر خراسانی کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا لیکن ہم وضاحت جب مانگیں گے تو جواب اور وضاحت طالبان شوری ہی دے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ کوئی راستہ نکل آئے تاکہ پھر سے بات چیت شروع ہو۔