9روز قبل راولپنڈی سے اغواء ہونیوالے ڈرون مخالف سرگرم کارکن کریم خان کو نامعلوم اغواء کار تھانہ ترنول کی حدود میں پھینک کر فرار ،اغواء کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور ملزمان نے میڈیا سے بات کرنے کی صورت میں دوبارہ اغواء کرنے کی دھمکی دی ہے،وکیل کریم خان ، آج دورے پر یورپ جائیں گے، ہالینڈ جرمی اور برطانیہ سمیت مختلف یورپی ممالک پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے

ہفتہ 15 فروری 2014 07:34

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15فروری۔2014ء) 9روز قبل راولپنڈی سے اغواء ہونے والے ڈرون مخالف سرگرم کارکن کریم خان کو نامعلوم اغواء کار تھانہ ترنول پولیس( اسلام آباد) کے نواحی علاقہ میں پھینک کر فرار ہوگئے۔بازیابی کے بعد کریم خان اپنے گھر پہنچ گیا ہے ، کریم خان کے وکیل کے مطابق انہیں اس دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور ملزمان نے میڈیا سے بات کرنے کی صورت میں دوبارہ اغواء کرنے کی دھمکی دی ہے۔

وہ آج ہفتہ کو اپنے دورے پر یورپ پہنچیں گے جہاں وہ ہالینڈ جرمی اور برطانیہ سمیت مختلف یورپی ممالک پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے۔تفصیلات کے مطابق چند روز روالپنڈی سے اغواء ہونے والے کریم خان(ڈرون مخالف سرگرم کارکن) کوزخمی حالت نامعلوم ملزمان جمعرات اور جمعہ ک آخری شب تھانہ ترنول پولیس کے علاقہ میں پھینک کر فرار ہوگئے ۔

(جاری ہے)

جس کے بعد کریم خان بذریعہ ٹیکسی روالپنڈی میں واقع اپنے گھر پہنچ گیا۔

اس حوالے سے کریم خان کے وکیل شہزاد اکبر نے ”خبر رساں ادارے“کو بتایا کہ کریم خان کو نو روز تک اغواء کے دوران کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا جہاں ملزمان اس پر مسلسل تشدد کرتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ ان پر تشدد مختلف طریقوں سے کیا گیا ، کبھی ان کے ہاتھ پاوٴں باندھ کے اور کبھی ان پر ایک بندے کو بٹھا کر تشدد کیا گیا، اور تشدد کے نشان ان کے جسم پر واضح ہیں۔

ایک سوال کے جواب پر انہوں نے بتایا کہ وہ کریم خان نے اپنا دورہ منسوخ نہیں کیا اور وہ جمعہ کی رات ایک بجے کی فلائیٹ سے جرمنی راوانہ ہونگے جس کے بعد وہ ہالینڈ اور پھر برطانیہ جائیں گے۔ ان کا کہناتھا کہ کریم خان نے اپنے دورے کے دوران مختلف یورپی ممالک کے پارلیمنٹ سے ڈر ون حملوں بارے خطاب کرنا ہے اور اس کے تباہ کاریوں و انسانی حقوق کی خلاف ورزی بارے یورپ کو بتائیں گے۔

یاد رہے کریم خان کو اغواء کیے جانے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر ہائیکورٹ پنڈی بنچ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور پنجاب پولیس کو حکم دیا تھا کہ 20فروری کو وہ کریم خان کو عدالت میں پیش کریں یا اس حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کریں جس پرپولیس نے کام شروع کر رکھا تھا تاہم وہ اس سے پہلے ہی بازیاب ہو چکے ہیں۔واضح رہے شمالی ویزیستان کے ضلع میر علی کے گاوٴں مچھی خیل کے مستقل سکونتی کریم خان کو چار اور پانچ فروری کی درمیانی شب راولپنڈی سے اغواء کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے کریم خان کے بردر نسبتی کی جانب سے تھانہ نصیر آباد میں دی گئی درخواست میں موٴقف اختیار کیا گیا تھا کہ”کریم خان والدگل خان گاوٴں مچھی خیل،ضلع و تحصیل میر علی شمالی وزیر یستان کو ان کی حالیہ رہائش گاہ ڈھوک مستقیم سے 04اور 05فروری کی درمیانی شب رات 12:30منٹ 10سے 15نامعلوم افراد جن میں سے کچھ پولیس کی وردی اور کچھ سادہ لباس میں ملبوس تھے ،اور ان افراد کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا نے آکر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر دروازہ کھولنے سے قبل ہی مذکورہ افراد نے دروازہ توڑ دیا اور گھر میں داخل ہوکر اپنی شناخت بتائے بغیر کریم خان کو زبرستی اٹھا کر لے گئے،واقعہ کے بعد مقامی پولیس کو بھی اطلاع دی گئی مگر پولیس نے ایسی کسی کاروائی کی تصدیق نہیں کی ،اس واقعہ کے دو چشم دید گواہ بھی موجود ہیں “۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ دوسال قبل مسمی کریم خان نے اپنے بیٹے ذہین اللہ اور بھائی آصف اقبال ڈرون حملے میں ناحق شہادت کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کیا تھا اور اس بابت ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے جس کی آئندہ سماعت 11فروری کو ہونی ہے، لہذا واقعہ میں چادر چاردیواری کا تقدس پامال کرنے اور بے گناہ شہری کو اغواء کرنے کا مقدمہ فی الفور درج کیا جائے اور کریم خان کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں“۔

اس حوالے سے ”خبر رساں ادارے“کے رابطہ کرنے پر تھانہ پولیس کے مطابق درخواست گزاروں کے پولیس پر الزام کے باعث مختلف مقامی پولیس سے بھی اس حوالے سے پتا کیا گیا تھا تاہم ایسی کوئی کاروائی پنجاب پولیس کی جانب سے کیے جانے کی تصدیق نہیں ہوئی البتہ پولیس کی یونیفارم کا ملزمان کی طرف واردات کے لئے استعمال کرنے کا غالب امکان ہے۔اس حوالے سے ”خبر رساں ادارے“ کے رابطہ کرنے پر کریم خان کے برادرنسبتی دلبر خان والد گل خان نے ”خبر رساں ادارے“کو بتایاتھاکہ” 31دسمبر 2009ء کی رات ساڑھے نوبجے کریم خان کی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ان کا 21سالہ بیٹا ذہین للہ ولد کریم خان جو حافظ قرآن و میٹرک پاس تھا اور مقامی سکول میں چوکیدار ی کی نوکری کرتا تھا ناحق شہید کیا گیا تھا اور اس حملہ میں اس کا بھائی آصف اقبال ولد گل خان جو کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے انگش کا ڈگری یافتہ تھا اور مقامی سکول میں سی ٹی ٹیچر تھا مارا گیا تھا“۔

دلبرخان کے مطابق ”کریم خان نے اس واقعہ کے بعد سی آئی اے اور ڈرون حملوں کے خلاف رضاکارانہ طور پر مہم کا آغاز کر رکھا تھا اور اس حوالے سے اس نے اسلام آباد و پشاور میں متعدد مظاہر ے بھی کیے تھے جبکہ وہ اس حوالے سے امریکہ بھی جاکر ڈرون حملوں کے خلاف شعور اجاگر کرنا چاہتا تھا تاہم امریکی سفارتخانے نے ان کی ویزہ کی درخواست منظور نہیں کی تھی“۔

کریم خان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں،وہ 1967ء میں شمالی ویزیستان کے نواحی گاوٴں مچھی خیل میں پیدا ہوا ،قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے عربی کی ڈگری کی جبکہ اسلامک یونیورسٹی سے ایم فل بھی کیا تاہم ایم فل کی ڈگری مکمل کرنے بارے مکمل معلومات نہیں ملیں، کریم خان گزشتہ ایک برس سے راولپنڈی کے علاقہ ڈھوک مستقیم میں اپنے والدین اور بیوی بچوں سمیت ایک ڈبل سٹوری مکان کے اوپر والے فلور میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایک مقامی اخبار اور الجزیرہ ٹی وی کے لئے بطور صحافی فرائض سرانجام دے رہا ہیں۔