حکومت پاکستان صحافیوں کے قتل میں انصاف کی فراہمی میں دلچسپی نہیں رکھتی، صحافیوں کی عالمی تنظیم کا دعو یٰ ، پاکستان میں طالبان صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں،سال2013 میں 7 صحافی قتل ہوئے بلوچستان صحافیوں کے لئے مہلک ترین صوبہ ہے ‘آر ایس ایف نے صحافت پر عائد پابندیوں بارے سالانہ رپورٹ جاری کر دی

جمعرات 13 فروری 2014 03:33

پیرس(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014)پاکستان میں حکومت صحافیوں کے قتل میں انصاف کی فراہمی میں دلچسپی نہیں رکھتی، 2013 میں 7 صحافی قتل ہوئے جن میں سے 4 کا تعلق بلوچستا ن سے تھا۔صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ساں فرنٹیئر نے دنیا بھر میں صحافیوں پر ہونے والے تشدد اور آزادی صحافت پر عائد پابندیوں کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال 2013 کے دوران پاکستان میں اپنے پیشے کی وجہ سے کم سے کم سات صحافیوں کو قتل کیا گیا۔

قتل کیے جانے والے چار صحافیوں کا تعلق بلوچستان سے تھا ، جن میں محمد اقبال، سیف الرحمن، عمران شیخ اور محمود احمد آفریدی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بلوچستان کو پاکستان کا مہلک ترین صوبہ قرار دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

تنظیم نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ پاکستان کی حکومت صحافیوں کے قتل کے واقعات میں انصاف کی فراہمی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اور حکومت پاکستان اس معاملے میں طالبان، جہادیوں اور دوسرے مسلح گروہوں کے سامنے بے بس ہے ،اس رپورٹ میں آر ایس ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں مسلح گروہ جنہیں غیرریاستی عناصر بھی کہا جاتا ہے، صحافیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ،رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں بولنے کی جرات کرنے والے صحا فیو ں کو اغوا کرنے کے علا وہ انہیں تشدد کر کے قتل کر دیا جا تا ہے رپورٹرز ساں فرنٹیئر کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عرب ملک شام میں جاری خانہ جنگی نے پورے خطے میں صحافت پر ڈرامائی اثر ڈالا ہے۔

رپورٹ میں خفیہ سرکاری معلومات منظر عام پر لانے والے افراد کے خلاف کارروائیوں پر امریکہ اور برطانیہ پر بھی کڑی تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں ہونے والے واقعات سے لبنان میں صحافتی انتشار بڑھا ہے، اردن میں صحافت پر حکومتی گرفت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جبکہ عراق میں تشدد کو ہوا ملی ہے۔آر ایس ایف نے اس رپورٹ میں مصر کے حکام پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اخوان المسلمین کے خلاف کارروائیوں کی آڑ میں میڈیا کو منظم انداز میں نشانہ بنارہے ہیں۔

رپورٹ میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں پر بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکام شہریوں کی جاسوسی کے غیر مہذب طریقوں کو روکنے کے بجائے سرکاری راز افشا کرنے والے افراد کو پکڑنے کے جنون میں گرفتار ہیں۔