پسماندہ علاقوں کا کوئی بھی طالب علم ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کرنے کا خواہاں ہے تو اسے مفت تعلیم دی جائے گی،بلیغ الرحمان،آئندہ سال کے دوران صوبوں کے تعاون سے ملک بھر میں 40 ہزار غیر رسمی سکول قائم کئے جائیں گے،قائمہ کمیٹی کو بریفنگ،قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کا ہائر ایجوکیشن کمیشن (ا یچ ای سی) کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار،چیئرمین نے سکالر شپ اور یونیورسٹیوں کے فنڈز کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے سب کمیٹی تشکیل دے دی

جمعرات 13 فروری 2014 03:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ا یچ ای سی) کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹیوں کو فنڈز کا اجراء میرٹ پر نہیں کیا جا رہا، جس پر چیئرمین نے سکالر شپ اور یونیورسٹیوں کے فنڈز کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے سب کمیٹی تشکیل دے دی ،اجلاس میں کمیٹی کو آئندہ مالی سال 2014-15 کے ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہو ئے وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمان نے بتایا کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ گھمبیر مسائل سے دوچار ہے جس کی وجہ سے شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے، پاکستان کا شمار تعلیم کے اعتبار سے دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے جس کے لئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے رہے ہیں جس کے تحت آئندہ سال کے دوران صوبوں کے تعاون سے ملک بھر میں 40 ہزار غیر رسمی سکول قائم کئے جائیں گے،پسماندہ علاقوں کا کوئی بھی طالب علم ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کرنے کا خواہاں ہے تو اسے مفت تعلیم دی جائے گی۔

(جاری ہے)

۔بدھ کو قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کا اجلاس چیئرمین گلزار خان کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں ارکان کمیٹی کے علاوہ وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمن، سیکرٹری تعلیم و تربیت احمد بخش لہڑی، چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر افتخار گیلانی سمیت وزارت تعلیم کے مختلف پروگراموں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں کمیٹی کو آئندہ مالی سال 2014-15 کے ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت تعلیم و تربیت ملک میں تعلیم کے شعبے کی بحالی کے لئے 14منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جن میں سے 7منصوبوں پر کام جاری ہے جب کہ 6 منصوبوں کا پی سی ون تیار کر کے وزارت منصوبہ بندی کو بھجوایا جا چکا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مذکورہ منصوبوں کی کل لاگت 30 ارب 60 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے جب کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کے لئے 10 ارب 85 کروڑ 30لاکھ طلب کئے گئے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کی جانب سے ہنر مند پاکستان کے حوالے سے جاری پروگرام پر کام جاری ہے جس کے لئے 4ارب64کروڑ 80لاکھ روپے منظور کئے گئے ہیں اور اب تک اس میں سے 35کروڑ خرچ کئے جا چکے ہیں۔ اجلاس میں بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز (بیکس) پراجیکٹ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں اس وقت 13ہزار سے زائد غیر رسمی سکول کام کر رہے ہیں جہاں پر بچوں کو پہلی سے پانچویں تک کی تعلیم 3 سالوں میں دی جاتی ہے، ان سکولوں میں 5 لاکھ 75ہزار بچوں کو 13 ہزار اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں، تاہم فنڈز میں منظوری میں تاخیر کے باعث اساتذہ 7 ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔

جس پر وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت نے بتایا کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ گھمبیر مسائل سے دوچار ہے جس کی وجہ سے شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیکس منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے جن کو مزید فعال بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار تعلیم کے اعتبار سے دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے، نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے رہے ہیں جن کے تحت آئندہ سال کے دوران صوبوں کے تعاون سے ملک بھر میں 40 ہزار غیر رسمی سکول قائم کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ غیر رسمی سکولز کے اساتذہ کی تنخواہوں کے متعلق سمری منظوری کے لئے بھجوا دی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد جلد ادائیگیاں کر دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز سے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ غیر رسمی سکولز کے اساتذہ کا مشاہرہ اڑھائی ہزار سے بڑھا کر 8 ہزار روپے کرنے کا حکم دیا ہے جس پر جلد عمل کر دیا جائے گا۔

انہوں نے ارکان کمیٹی اور پارلیمنٹ سے تعلیم شعبے کی بحالی کے لئے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وزارت تعلیم کی جانب سے تمام ارکان پارلیمنٹ کو غیر رسمی سکولز کی تفصیلات فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ دور دراز علاقوں میں سکول داخلے سے محروم رہ جانے والے بچوں کو تعلیم دینے کے ضمن میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی کی جانب سے سکالر شپ میرٹ پر دی جا رہی ہیں، سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان، فاٹا، گلگت بلتستان اور خیبرپختون خواہ کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، ان پسماندہ علاقوں کا کوئی بھی طالب علم ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کرنے کا خواہاں ہے تو اسے مفت تعلیم دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی جامعات کے معیار کی بہتری کے لئے کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے بیشتر یونیورسٹیاں اس وقت عالمی رینکنگ میں شامل ہیں۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ (این سی ایچ ڈی) کے حوالے سے وزیر مملکت نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں 7ہزار 5 سو سے زائد سکول وفاق کے تحت کام کر رہے ہیں جن کی تعداد میں 6200سکولز کا مزید اضافہ کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ میں پانچ ہزار چار سو سے زائد بند سکول این سی ایچ ڈی چلا رہا ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی نے کمیٹی کو بتایا کہ یونیورسٹیوں کو فنڈز کی ادائیگی میرٹ پر اور فارمولے کے تحت کی جا رہی ہے، جامعات کو 65 فیصد فنڈز انرول منٹ، 20فیصد خصوصی پروگرامز جب کہ 15فیصد مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرنچ اور جرمن سکالر شپ کے حوالے سے مسائل سامنے آئے تھے، مذکورہ سکالر شپ ڈونرز نے خود تقسیم کئے تھے اور اس سے ایچ ای سی کا کوئی تعلق نہیں تھا، ہم نے صرف ایم او یو پر دستخط کئے تھے۔

ارکان کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹیوں کو فنڈز کا اجراء میرٹ پر نہیں کیا جا رہا، جس پر چیئرمین نے سکالر شپ اور یونیورسٹیوں کے فنڈز کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے سب کمیٹی تشکیل دے دی۔

متعلقہ عنوان :