امریکی سفیر کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات،حکومت طالبان مذاکرات سمیت مختلف امور پر گفتگو، طالبان سے مذاکراکت پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ،طالبان سے مذاکرات یا آپریشن اس کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ، رچرڈ اولسن ، 2014ء کے بعد افغان مسئلہ خطے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتاہے ،پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد غیر شرعی ہے،مولانا فضل الرحمن،مجھ پر حملہ کسی اور نے نہیں طالبان نے کیا تھا،طالبان سے مذاکرات کی اصل کنجی جی ایچ کیو کے پاس ہے،نجی ٹی وی کو انٹرویو

جمعرات 13 فروری 2014 03:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014) جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بدھ کو یہاں ملاقات کی ہے، ملاقات میں حکومت طالبان مذاکرات سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی ۔میڈیارپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکی سفیر کی رچرڈ اولسن اور فضل الرحمان کے درمیان ملاقات میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء اور انخلاء کے بعد کی صورتحال اور پاکستان کے کردار پر مشاورت کی گئی،ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی سفیر اور جے یو آء ف سربراہ کی ملاقات میں حکومت کے طالبان سے مذاکرات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ شدت پسندی اور طالبان سے مذاکراکت پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ،طالبان سے مذاکرات یا آپریشن اس کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان کو شدت پسندی سے نمٹنا ہے اور اس بارے فیصلہ خود کرنا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 2014ء کے بعد افغان مسئلہ خطے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتاہے ۔ادھرجمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد غیر شرعی ہے،مجھ پر حملہ کسی اور نے نہیں طالبان نے کیا تھا،طالبان سے مذاکرات کی اصل کنجی جی ایچ کیو کے پاس ہے۔

نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جنگ ہماری نہیں امریکہ اور مغربی دنیا کی ضرورت ہے جس نے10سال سے ہم پر دہشتگردی کو مسلط کیا ہوا ہے،ہم نے ہمیشہ مشکلات کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی ہے ہم نے جنوبی وزیرستان میں معاہدہ کرایا پھر شمالی وزیرستان میں معاہدہ کرایا اور ہم90 فیصد کامیاب ہوئے تھے،انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کی اصل کنجی جی ایچ کیو کے پاس ہے جس نے ہاں یا نہ کرکے معاملے کو آگے بڑھانا ہے،سیاستدان صرف عوام کو نظر آتے ہیں،فیصلہ کن فیڈ بیک جی ایچ کیو نے دینا ہوتا ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت میں شامل ہیں لیکن ہمارا نظریہ اپنا ہے،حکومت میں شمولیت کیلئے امن ہماری ترجیح تھی،نواز شریف سے پہلی ملاقات میں کہا کہ مذاکرات کیلئے فوج اور اسٹبلشمنٹ کو آن بورڈ لینا ہے اور پھر خود ہی ملاقات بارے بتایا آل پارٹیز کانفرنس میں آرمی اور آئی ایس آئی چیف نے شرکت کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم قوم کے شانہ بشانہ ہیں،انہوں نے کہا کہ میڈیا میں طالبان اور تحریک طالبان کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن تمام عسکریت پسند تنظیموں کو ایک صف میں لاکر ایک صف میں مذاکرات کئے جائیں،کئی تنظیمیں حکومت سے نہیں لڑتیں کئی کارروائیاں کرتی ہیں لیکن تحریک طالبان کا حصہ نہیں ہیں،ان سب کو اکٹھا کرکے بات چیت ہونی چاہئے اور وزیرداخلہ نے کہا تھا کہ اس کے تابع جارہے ہیں،انہوں نے کہا کہ مذاکرات کیلئے حکومت اور طالبان کی کمیٹیاں سامنے آئیں ہم صلح جو ہیں ہم نے اختلاف نہیں کیا اور تعاون کا یقین دلایا اور اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں،انہوں نے کہا کہ مفتی کفایت اللہ کا نام آنے سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ تحریک طالبان ایک تنظیم ہے،حکومت کی طرح اپنی صف سے کمیٹی بنا کر مذاکرات کیلئے آگے بڑھے عدم تحفظ غیر ضروری چیز ہوجاتی ہے میں نے مفتی کفایت اللہ کا نام آنے پر اپنی جماعت سے رابطہ کیا اور ہماری جماعت نقطہ نظر سے مطمئن نہیں تھی،اسی لئے فیصلہ کیا کہ مفتی صاحب شامل نہیں ہوں گے،انہوں نے کہا کہ قبائلی جرگے کو میں نے نہیں آل پارٹیز کانفرنس نے مذاکرات کرنے کا کہا تھا،ہم طالبان اور حکومت کے مذاکرات کی کامیابی کے خواہاں ہیں،قبائلی جرگے نے کردار کی بات نہیں کی،انہوں نے امن کا مطالبہ کیا تھا اب یہ معاملہ ہمارا نہیں آل پارٹیز میں شریک تمام جماعتوں کا ہے،امن کیلئے کردار کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی تھی،انہوں نے کہا کہ اس وقت مذاکرات کے ساتھ کارروائیاں اسی لئے چل رہی ہیں کہ طالبان کے ساتھ دیگر تنظیمیں مذاکرات میں شامل نہیں ہیں،انہوں نے کہا کہ دیوبند مکتبہ فکر کے تمام علماء کرام نے جو نکات طے کئے تھے اس کا ایک نقطہ یہ بھی تھا کہ پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد کرنا غیر شرعی ہے اور یہ مسودات میں نے پارلیمنٹ کی کارروائی کا حصہ بنائے تھے،مجھ پر حملہ کرنے والا کوئی اور نہیں طالبان ہی تھے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلح جدوجہد کو غیر شرعی قرار دے دیا گیا تھا۔