طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان ہونے والا اجلاس موخر، آج ہوگا، تمام طالبان گروپوں نے مذاکرات کی حمایت کردی ، کوئی گروپ مذاکرات کے خلاف ہوتا تو ضرور مخالفت سامنے آ جاتی‘ بعض عناصر دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے امن عمل کی کوششوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں، سمیع الحق ،طالبان نے شریعت کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، رستم شاہ مہمند ،طالبان نے جنگ بندی پر اصولی طور پر اتفاق کرلیا ہے، تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ دہشتگردی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، کسی گروپ یا تنظیم کا اپنا نظام نافذ کرنے کا مطالبہ نہیں مانیں گے، میڈیا سے گفتگو

جمعرات 13 فروری 2014 03:25

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13اگست۔2014)طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان بدھ کو ہونے والا اجلاس موخر کر دیا گیا ہے,اجلاس اب آج جمعرات کو ہوگا۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق حکومتی کمیٹی کی جانب سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کے مطالبے پر کوئی جواب نہیں آیا۔انھوں نے کہا کہ اب تک ہونے والے مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں، آج جمعرات کو ہونے والی طالبان اور حکومتی کمیٹی کی ملاقات میں طالبان کمیٹی نے طالبان سے ملنے والی تفصیلات سرکاری کمیٹی کے سامنے رکھ دی تھیں جس پر حکومتی کمیٹی نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مذاکراتی عمل میں اچھی پیش رفت قرار دیا ہے۔

طالبان اور حکومتی کمیٹی کی کل ہونے والی ملاقات میں طالبان سے ملنے والی تفصیلات پر بات چیت کی جائے گی۔

(جاری ہے)

دونوں کمیٹیوں کے اراکین ملاقات میں مذاکراتی عمل کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ادھرطالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان کے تمام گروپوں نے مذاکراتی عمل کی حمایت کی ہے، کوئی گروپ مذاکرات کے خلاف ہوتا تو ضرور مخالفت سامنے آ جاتی۔

پروفیسر ابراہیم کہتے ہیں کہ حکومتی کمیٹی جب چاہے اس کی طالبان سے ملاقات کرا دیں گے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ بعض عناصر دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے امن عمل کی کوششوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں، انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا، امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے طالبان اور حکومت کی جانب سے فائر بندی کے لئے تجاویز دی گئی ہیں، توقع ہے کہ جلد فائر بندی ہو جائے گی۔

طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کا کہناتھا کہ ان کا آج حکومتی کمیٹی سے ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے، حکومتی کمیٹی نے ان کی وزیراعظم ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی تجویز پہنچا دی ہے، حکومتی کمیٹی نے کہا کہ وہ مشاورت کے بعد جلد آگاہ کریں گے ، مذاکراتی کمیٹیوں کی پہلی ترجیح فائر بندی ہے۔جبکہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ طالبان نے شریعت کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، طالبان نے جنگ بندی پر اصولی طور پر اتفاق کرلیا ہے، تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ دہشتگردی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، کسی گروپ یا تنظیم کا اپنا نظام نافذ کرنے کا مطالبہ نہیں مانیں گے۔

وہ بدھ کو یہاں اسلام آباد میں منقعدہ سیمینار میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔ رستم شاہنے کہا کہ مذاکرات مشکل سفر ہے دشواریاں بھی آئیں گی، پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات ہوں گے،انہوں نے کہا کہ کسی گروپ یا تنظیم کو کوئی علاقہ نہیں دیا جائے گا، کسی گروپ یا تنظیم کا اپنا نظام نافذ کرنے کا مطالبہ نہیں مانیں گے، پاکستان کے آئین سے باہر کوئی بات قبول نہیں کریں گے،رستم شاہ نے کہا کہ آج حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان کوئی میٹنگ نہیں ہوگی، طالبان نے جنگ بندی پر اصولی طور پر اتفاق کرلیا ہے، طالبان کے مخالفین دہشتگرد کارروائیاں کر رہے ہیں، رستم شاہ نے کہا کہ مذاکرات صرف تحریک طالبان پاکستان سے ہورہے ہیں کسی اور سے نہیں کریں گے،انہوں نے بتایا کہ طالبان کو بندوبستی علاقوں میں آنے سے جان کو خطرات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی جان کو خطرات ہیں، طالبان حکومت سے براہ راست مذاکرات کے لیے یقین دہانیاں چاہتے ہیں، رستم شاہ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ 8سے9 معاملات پر بات ہوگی، طالبان سے ہونے والے معاہدے کے بعد کوئی دوسرا گروپ یا تنظیم اسیتسلیم کرتے ہوئے معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔اس سے قبل تقریب سے خطاب کے دوران رستم شاہ نے کہا کہ اگر امریکہ اور اتحادیوں کی ایک لاکھ سے زائد افواج قابو نہیں پاسکیں تو 2014 کے بعد 12 ہزار فوجی کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں، بغیر مفاہمت کے چھوڑا گیا تو افغانستان زیادہ خطرناک اور منقسم معاشرہ ہوگا۔