سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کل تعداد پندرہ لاکھ ہے،سیکرٹری خارجہ ، حراستی مراکز میں پھنسے پاکستانی 26ہزار میں سے اب صرف 4133ہیں، سعودی حکام صرف تصویر کے ذریعے پاکستانیوں بارے سفارتخانے کو آگاہ کرتے ہیں، سعودی قونصل خانے کی پانچ رکنی ٹیم پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی رہائی کے لیے دن رات کوشاں ہے،حکومت فنڈ فراہم کرے تو پی آئی اے کے ذریعے ان کی جلد واپسی ممکن ہے، ٹ قائمہ کمیٹی خارجہ امور اجلاس میں بریفینگ ، حکومت قانونی اور انتظامی معاملات کو مد نظر رکھ کر کسی معاہدے کی منظوری دیتی ہے، حکام وزارت قانون، اجلاس میں رضاربانی کی طرف سے بیرونی معادات کی پارلیمنٹ سے توثیق کے بل 2007 پر بحث ،عوام کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کی توثیق کے بغیر کابینہ کسی بھی معاہدے کی منظوری نہیں دے سکتی ،رضاربانی ، آئین میں درج کلازز کے ذریعے معاہدوں کی توثیق 15 دنوں میں پارلیمنٹ سے ضروری ہے جس کے بعد کابینہ سے منظوری حاصل کرنا لازمی ہے،اعتزاز احسن ، اب بھی آئی ایم ایف ڈنر ایجنسیز اور بین الااقومی اداروں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو عوام سے چھپایا جارہا ہے،سینیٹر صغریٰ امام

بدھ 12 فروری 2014 07:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12فروری۔2014ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی خارجہ امور کے اجلاس میں سیکرٹری خارجہ اعجاز چوہدری نے بتایا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کل تعداد پندرہ لاکھ ہے حراستی مراکز میں پھنسے پاکستانی 26ہزار میں سے اب صرف 4133ہیں زیادہ تر پاکستانی عمرہ اور حج کے جاری کردہ ویزوں کی مدت سے زیادہ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور گرفتاری کے وقت اپنے شناختی کاغذات پھاڑ دیتے ہیں ،سعودی حکام صرف تصویر کے ذریعے ان پاکستانیوں کے بارے میں سفارتخانے کو آگاہ کرتے ہیں، سعودی قونصل خانے کی پانچ رکنی ٹیم پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی رہائی کے لیے دن رات کوشاں ہے، حکومت فنڈ فراہم کرے تو پی آئی اے کے ذریعے ان کی جلد واپسی ممکن جبکہ وزارت قانون کے حکام نے کہا کہ حکومت قانونی اور انتظامی معاملات کو مد نظر رکھ کر کسی معاہدے کی منظوری دیتی ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹ قائمہ کمیٹی خارجہ امور کے اجلاس منگل کو منعقد ہوا ۔اجلاس میں سینیٹر رضاربانی کی طرف سے بیرونی معادات کی پارلیمنٹ سے توثیق کے بل 2007 پر بحث کے دوران سینیٹر رضاربانی نے کہاکہ عوام کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ کی توثیق کے بغیر کابینہ کسی بھی معاہدے کی منظوری نہیں دے سکتی ۔ مشرف آمریت کے دور میں آئی ایم ایف ، بین الااقومی امدادی اداروں ، ایساف ، امریکہ ، نیٹو کے ساتھ معادات اور شمسی ایئر بیس کے بارے میں بارہا وزارت خارجہ وزیراعظم سیکرٹریٹ صدر ہاؤس سے معلومات کا مطالبہ کیا گیا لیکن بین الااقومی معادات کے بارے میں ہر بار نفی میں جواب دیا گیا ثبوت دیا گیا اور نہ ہی ریکارڈ ثابت ہوا عام شہری کی رسائی آئین کے تحت ناممکن تھی اور حقائق بھی سامنے نہ لائے گئے ۔

ڈرون حملوں کے معاہدہ کے بارے میں صدارتی کیمپ اور فارن آفس میں بھی کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا ۔ دیگر خود مختار اور جمہوری ممالک کی روایت کو مدنظر رکھ کے پرائیوٹ بل پیش کیا تھا ایک ہفتے کا وقت دیا جائے ترامیم کرنا چاہتا ہوں ۔ بین الااقومی قوانین اور پاکستانی آئین کے تحت دو ممالک کے درمیان معادات سے آگاہی عوام کا بنیادی حق ہے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے کیے گئے معاہدے غیر آئینی ہے کوئی بھی جمہوری حکومت اپنے عوام سے مخفی معاہدہ نہیں کر سکتی نہ ہی قوم کو اندھیر میں رکھ سکتی ہے آئین کے تحت لیوی اور ٹیکس حکومت پارلیمنٹ سے پاس کردہ منی بل کے ذریعے نفاذ کر سکتی ہے سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس کے ذریعے بھی ججمنٹ دے دی ہے کہ ایس آراوز کی جگہ ٹیکس نفاذ کا ذریعہ آئین میں درج ہے ۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ آئین میں درج کلازز کے ذریعے معاہدوں کی توثیق 15 دنوں میں پارلیمنٹ سے ضروری ہے جس کے بعد کابینہ سے منظوری حاصل کرنا لازمی ہے امریکی صدر اور سیکرٹری سٹیٹ کے اختیارات کی مثالیں پارلیمنٹ کی تضحک کے برابر ہیں سول حکومیتں معذرت خواہنا نہیں اپناتی اقتدار اعلیٰ کو ٹیس پہچانا امرانہ سوچ ہے سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ 18وین ترمیم کے بعد صدارتی اختیار کو خاتمہ ہو گیا ہے اور صدر کے سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں رہی سینیٹر صغریٰ امام نے کہا کہ اب بھی آئی ایم ایف ڈنر ایجنسیز اور بین الااقومی اداروں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو عوام سے چھپایا جارہا ہے ۔

اور سبسڈی بھی آئی ایم ایف کے حکم پر واپس لی جارہی ہے اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا ۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ سے توثیق شدہ بجٹ کی منظوری کابینہ سے ضروری ہے تو معادات کی تفصیلات سے پارلیمنٹ کو آگاہ کرنا اور پارلیمنٹ سے توثیق حاصل کرنا لازمی ہے بھارت امریکہ اور دوسرے جمہوری ممالک میں معاہدوں کی توثیق دونوں ایوانوں سے ضروری ہے ۔

سینیٹر رضاربانی کے بل سے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی پاکستان کے مفادات کا بہتر تحفظ کیا جا سکے گا۔کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ سینیٹر وسیم سجاد کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کی طرف سے پیش کردہ 2010بل اپنی قانونی حیثیت کھوچکا اس لیے اس پر بحث لا حاصل ہے ۔ سینیٹر غفور حیدری نے کہاکہ سعودی عرب میں کاروبادی طبقے اور عوام کا براہ راست رابطہ قائم کرنے کے لیے سعودی عرب کے لیے وزٹ ویزہ کی اجازت ہونی چاہیے ۔

چیئرمین کمیٹی حاجی عدیل نے کہا کہ پارلیمنٹ بالا دست ہے کسی شخص کے غیر ملکی معاہدہ کی کوئی حیثیت نہیں پارلیمنٹ کی توثیق کے بغیر معاہدہ غیر آئینی اور پارلیمنٹ سے معاہدہ کی تفصیلات چپانہ بھی غیر آئینی ہے دوسرے ممالک کے ساتھ برابری خود مختاری اور وقار کو ملحوظ رکھ کر ملکی و قومی مفاد میں معادات کیے گے ۔ حکومت سخت اقدامات کرے سفارتخانوں کے بارے میں شکایات کا ازلہ کیا جائے سعودی حکومت کی طرف سے عمرہ ویزہ مفت ہے لیکن کاروبا کے ذریعے لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں ۔

سیکرٹری خارجہ اعجاز چوہدری نے آگاہ کیا کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی کل تعداد پندرہ لاکھ ہے حراستی مراکز میں پھنے پاکستانی 26ہزار میں سے اب صرف 4133ہیں ذیادہ تر پاکستانی عمرہ اور حج کے جاری کردہ ویزوں کی مدت سے ذیادہ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور گرفتاری کے وقت اپنے شناختی کاغذات پھاڑ دیتے ہیں سعودی حکام صرف تصویر کے ذریعے ان پاکستانیوں کے بارے میں سفارتخانے کو آگاہ کرتے ہیں نادرا کے ریکارڈ اور کوائف حاصل کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے سعودی کونسل خانے کی پانچ رکنی ٹیم پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی رہائی کے لیے دن رات کوشاں ہے حکومت فنڈ فراہم کرے تو پی آئی اے کے ذریعے ان کی جلد واپسی ممکن ہے وزارت قانون کے ملک حکام نے کہا کہ حکومت قانونی اور انتظامی معاملات کو مد نظر رکھ کر کسی معاہدے کی منظوری دیتی ہے

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :