سپریم کورٹ نے35 لاپتہ افراد کیس میں حکومت کو معاملے کی تحقیقات کے لئے10 روز میں یک رکنی کمیشن مقرر کرنے کی مہلت دیدی، کے پی کے حکومت کو 35 لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کا حکم، لاپتہ افراد کے مقدمات میں ملوث افراد کیسے چین کی نیند سوتے ہیں ،مقدمے کو منطقی نتیجہ تک پہنچا کر دم لیں گے،جسٹس جواد ایس خواجہ، وفاقی یا صوبائی حکومت کچھ کرتی ہے یا نہیں ہم آئین و قانون کی پامالی کی اجازت نہیں دینگے ،ہمارے پاس بندوق یا چھڑی نہیں ،آئین و قانون کی طاقت ہے اس کا استعمال کریں گے، حکومت کے پاس فوج ،پولیس اور حساس ادارے موجود ہیں،ریمارکس

بدھ 12 فروری 2014 07:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12فروری۔2014ء)سپریم کورٹ نے35 لاپتہ افراد کیس میں حکومت کو معاملے کی تحقیقات کے لئے10 روز میں یک رکنی کمیشن مقرر کرنے کی مہلت دے دی جبکہ کے پی کے حکومت کو حکم دیا ہے کہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے 35 لاپتہ افراد کی گمشدگی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ حکومت کی مقرر کردہ خصوصی کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے اور انہوں نے تمام تر ریکارڈ ،شواہد کا جائزہ لیا ہے ۔

جلد ہی قانون کے مطابق اگلا قدم اٹھائے گی ۔فوج کے جے او سی کے روبرو معاملہ اٹھایا گیا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں ملوث افراد کیسے چین کی نیند سوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

مقدمے کو منطقی نتیجہ تک پہنچا کر دم لیں گے۔ وفاقی یا صوبائی حکومت کچھ کرتی ہے یا نہیں ہم آئین و قانون کی پامالی کی اجازت نہیں دیں گے۔

وفاق اور صوبے کو ان کی آئینی و قانونی ذمہ داریاں یاد دلانا ہمارا فرض ہے ۔ہم ادا کرتے رہیں گے، ہم کسی کو مشورہ یا ایڈوائس کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔جو کچھ بھی کرنا ہے اب وفاق اور ہمارے صوبے نے کرنا ہے۔لاپتہ افراد سب کا ایشو ہے۔سرکار کے پاس آئین و قانون کی طاقت ہے اور وہ بے بس نہیں ۔سپریم کورٹ آئین و قانون کی عملداری چاہتی ہے۔ہمارے پاس بندوق یا چھڑی نہیں ۔

آئین و قانون کی طاقت ہے اس کا استعمال کریں گے۔ حکومت کے پاس فوج ،پولیس اور حساس ادارے بھی موجود ہیں۔ حکومت یک رکنی کمیشن بنائے یا دس رکنی ہمیں نتیجہ چاہیے۔ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ۔کسی کو لاقانونیت پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جسٹس جواد نے ریمارکس میں مزید کہا کہ یک رکنی کمیشن نے کام سے معذرت کرلی ہے اب حکومت مزید وقت مانگ رہی ہے ۔

اس نے کرنا کچھ بھی نہیں پھر بھی وقت دے دیتے ہیں۔ وزارت دفاع نے کچھ نہ تو پھر وہی کریں گے جو آئین و قانون کہتا ہے۔انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر،اے جی کے پی کے اور دیگر حکام پیش ہوئے ۔35 لاپتہ کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے پیش ہوئے، اس دوران ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے رپورٹ پیش کی جس کا عدالت نے جائزہ لیا۔

عدالت نے ان سے پوچھا کہ اب تک حکومت ہونے کے ناطے آپ نے کہاں تک ذمہ داری سنبھالی ہے۔یوسف زئی نے بتایا کہ 29 جنوری2014 کو سماعت کی گئی تھی ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے6 فروری کو میٹنگ کی تھی اس کی رپورٹ آپ کے پاس جمع ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس کا لب لباب بتا دیں۔اے جی نے کہا کہ35 افراد کے حوالے سے عدالت کو بتایا جا چکا ہے کہ ان لوگوں کو آرمی کے لوگ لے گئے تھے ۔

متعلقہ حکام کو بھی بلایا گیا آرمی کے لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ۔یہ میٹنگ ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں منعقد کی گئی ۔آئی جی جیل خانہ جات مالاکنڈ حراستی مرکز انچارج ،جے او سی بھی رابطے میں تھے ۔کمیٹی نے حراستی مرکز کے انچارج کی جانب سے جمع کرایا گیا ۔ریکارڈ کا جائزہ لیا ۔عطاء اللہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مالاکنڈ کا تمام ریکارڈ دیکھا گیا۔رجسٹر کے علاوہ اور کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ ان لوگوں کو آرمی کے لوگوں کو لے گئی ہے ۔

عطاء اللہ اپنے رجسٹر میں سب کچھ درج کرتے تھے۔ فوج ایسے تمام عناصر کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتی ہے جو امن وامان تہہ وبالا کرنے میں ملوث تھے ۔ڈپٹی کمشنر کا بھی انٹرویو کیا گیا مگر وہ بھی 35 لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی جواب نہ دے سکے۔اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ لاپتہ افراد افغانستان تو نہیں چلے گئے۔ عدالت نے پوچھا کہ اب صوبائی حکومت کیا کرے گی؟ ۔

اے جی نے بتایا کہ حکومت فوج کے اعلی حکام سے رابطے میں ہے اور پتہ کیا جارہا ہے کہ یہ لاپتہ افراد کہاں ہیں؟اصل لوگ کون تھے جو لوگ لے گئے تھے ان لوگوں کے اصل ناموں کا پتہ نہیں ہے۔جسٹس جواد نے جواب مسترد کر دیا کہ ان لوگوں کے نام تو ہمیں بھی معلوم ہیں اور بتا سکتے ہیں آپ نے صوبیدار امان کا پتہ کرنا تھا ۔ہمیں تو نیند بھی نہیں آنی چاہیے ۔

اے جی نے کہا کہ صوبے کا جو حال ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم کہتے کچھ ہیں میڈیا کچھ چلاتا ہے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ اور گروپ کیپٹن بھی یہاں آئے اور کہا کہ انہیں ان بارے میں معلومات نہیں ہیں۔صوبے کا جو حال ہے شاید یہی وجہ ہو۔حوالگی کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے ۔اس کے نتائج کیا ہوں گے ۔اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ سیاسی حکومت کے نزدیک اس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔

کچھ صوبے اور وفاق میں قانون سازی ہوگی ۔کہیں نہ کہیں یہ مسئلہ حل کی جانب جائے گا۔آئینی و قانون ک پاسداری ضروری ہے ۔آپ کا اگلا قدم قانون کی پاسداری ہے ۔تین نام نہیں تو ایک شخص کا نام موجود ہے۔دو گواہ بھی موجود ہیں۔شواہد بھی موجود ہیں۔ہمارے لئے یہ حساس معاملہ ہے۔ وہ ادارے جو قانون نافذ کرنے میں سرگرداں ہیں ان کو اگر کسی طرح سے قار داد پیش ہوجائے تو ان کو کٹہرے میں نہ لانا پڑے تو بہترہے اگر وہ کٹہرے میں آگئے تو معاملات مزید خراب ہو سکتے ہیں ۔

5سے6 ماہ ہوگئے محبت شاہ ہر سماعت پر آ رہا ہے ہم اس کو جواب دہ ہیں ہم یہاں بیٹھ کر ہمارا آئینی اور قانونی فرض ہے کہ آپ کو آپ کے فرض یاد دلائیں ۔صوبے یا وفاق اپنی آئینی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تو ہم قانون نہیں بنائیں گے ۔قانون پر عمل ضرور کرائیں گے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا تو وہ غلطی پر ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ آپ نے جی او سی کو لکھ دیا ہے ۔

اے نے کہا کہ مجھے جو معلومات دی جاتی ہیں وہ آپ کو بتلا دیتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ زندگی کے ہر کام میں مشکلات تو کرتی ہیں مگر اس کو قانون کے مطابق حل کرنا چاہیے۔ لطیف یوسفزئی نے کہا کہ ہم فوج کو آئین و قانون بارے آگاہی دیں گے کہ قانون اس طرح سے کاموں کی اجازت نہیں دے سکتا ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہم کسی کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔

ایڈوائس بھی نہیں کر سکتے جو کچھ بھی کرنا ہے وفاق اور صوبائی حکومت نے کرنا ہے ۔جنرل آفس کمانڈنگ سے رابطہ کیا ہوا ہے۔وزارت دفاع کی آئین و قانونی ذمہ داری ہے ۔رولز آف بزنس میں آرمی چیف نے بھی اپنا جواب سیکرٹری دفاع کو ذریعے دینا ہوتا ہے۔ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں ۔لاپتہ افراد کا ایشو سب کا ہے۔ تفصیلات مختلف ہو سکتی ہیں ۔سرکار چاہیے وفاق یا صوبے کی ہو وہ ہے یہ نہیں ہے ۔

وہ قانون کے تحت اختیار رکھتی ہے ۔ہمارے ہاتھ میں ایک چھڑی بھی نہیں ہے۔ سرکار کے پاس پولیس ،فوج، حساس ادارے ہیں ،سپریم کورٹ آئین و قانون کی عملدرداری چاہتی ہے۔یہ سب ہم نے دس دسمبر2013 کے حکمنامہ میں لکھ دیا ہے۔ ایک معاملہ سامنے آ چکا ہے ۔اس کو قانون کے مطابق دیکھیں۔آئین و قانون سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کہا کہ وزارت دفاع کے کہنے پر ایک رکنی کمیشن مقرر کر دیا ہے اس کو تحقیقات کے وقت دے دیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اگلا قدم سب کو پتہ ہے کہ کیا ہوتا ہے ۔کے پی کے نے قانون کا راستہ پکڑ لیا ہے ۔ہم زیادہ وقت نہیں دیں گے ۔یک رکنی کمیشن بنائیں جو مرضی کریں ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ دفعہ154 کیا کہتا ہے اس کے مطابق سب کو چلنا ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے حکمنامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ حکومت خیبر پختونخواہ نے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی تھی جو 35 لاپتہ افراد کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے اور ذمہ داروں کا تعین کررہی ہے۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ بھجوائی ہے۔ جس میں کہاگیا ہے کہ35 افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے رابطہ کیا گیا ہے۔ اگر عدالت اس حوالے سے کوئی حکم جاری کرتی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ اے جی کے پی کے نے کہا کہ قانون کے مطابق اگلا قدم اٹھایا جارہا ہے تا کہ لاپتہ افراد کے معاملے کی تحقیقات مناسب انداز سے ہو سکے۔4 روز قبل کمیٹی نے اپنی رپورٹ بنائی ہے ان کو مزید وقت دیا جائے تا کہ معاملے میں مزید پیش رفت کی جا سکے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا کہ حکومت نے تحقیقات کے لئے ایک رکنی کمیشن 24 جنوری کو مقرر کر دیا گیا ہے ۔اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ قواعد وضوابط طے ہوگئے ہیں لیکن کمیشن نے اپنی عدم دستیابی سے حکومت کو آگاہ کیا ہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چند دنوں تک ایک اور کمیشن مقرر کر دیا جائیگا۔ عدالت نے اس کی تجویز ایک لحاظ سے مسترد کر دی ہے ۔

کافی عرصہ ہوگیا ہے کہ معاملہ ابھی تک محدود تک پیش رفت ہوئی ہے ۔ 35 لاپتہ افراد میں سے صرف سات افراد پیش کئے گئے اور ان کی شناخت کی گئی ۔ عدالت نے 8 دیگر لاپتہ افراد بارے پوچھا تو طارق کھوکھر نے وزارت دفاع کے نمائندے سے عدالت میں مسئلے کی بابت پوچھا اور بعد ازاں عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے بھی بھی وزارت دفاع نے کچھ وقت مانگا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ کسی کو خیال ہے کہ ہم کیس فائل کر دیں گے تو یہ وہ غلطی پر ہے اس پرعاملے پر آخری حد تک جائیں گے اور کہیں رکے گیں گے نہیں۔

عدالت نے اپنے حکمنامہ میں مزید کہا کہ وزارت دفاع نے جو وقت مانگا ہے وہ پہلے بھی دے چکے ہیں اب اور کتنا وقت دیں۔لاء آفیسر اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبائی حکومت اور پولیس قانون کے مطابق اس معاملے کو جلد سے جلد نمٹا جائے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ اگر وزارت دفاع ہمیں کچھ نہیں بتاتی تو جو آئین و قانون کہتا ہے پھر اس کے مطابق چلیں گے اور اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہوگا،ہم یہاں کسی لاقانونیت ۔۔۔۔۔کی اجازت نہیں دے سکتے۔ صوبائی حکومت خود تسلیم کر رہی ہے کہ ان کے صوبے میں لاقانونیت بڑھ رہی ہے اس کیس کی سماعت10 روز کے لئے ملتوی کی جاتی ہے