پاکستان میں طالبان کا سر اْٹھانا افغانستان کے لئے ایک خطرہ ہے، امریکی اخبار ، حکومت پاکستان نے طالبان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں بند کرا دیں اور بغاوت کو ختم کرانے کے خیال سے کسی سمجھوتے کے لئے مذاکرات کو ترجیح دی،طالبان کے نئے لیڈر مولانا فضل اللہ کو طالبان کے مختلف دھڑوں پر اپنی قیادت کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کیا‘ رپورٹ

اتوار 9 فروری 2014 08:02

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔9فروری۔2014ء) امریکی اخبار نے کہا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا سر اْٹھانا پڑوسی افغانستان کے لئے ایک خطرہ ہے، جہاں سے بیشتر امریکی فوجیں اس سال کے آخر تک انخلاکرنے والی ہیں صدر اوبامہ نے ملک کی عمومی صورت حال پر کانگریس سے جو خطاب میں افغانستان کی جنگ کے بارے میں ’سرسری ذکر کیا‘، اور ’پاکستان کا سرے سے نام ہی نہیں لیا، جہاں طالبان دہشت گرد پھر حملے کر رہے۔

مقامی اخبار کا کنہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں بند کرا دیں اور بغاوت کو ختم کرانے کے خیال سے کسی سمجھوتے کے لئے مذاکرات کو ترجیح دی، اور اس طرح، طالبان کے نئے لیڈر مولانا فضل اللہ کو طالبان کے مختلف دھڑوں پر اپنی قیادت کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کیا۔

(جاری ہے)

’امید یہ تھی کہ اس طرح، وہ زیادہ سیاسی قوّت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے گا۔

حالانکہ، پچھلے ایک عشرے کے دوران، اس قسم کی جنگ بندیاں بار بار ناکام ہو چْکی ہیں۔ اور فضل اللہ نے اس موقع کو اپنی قوتیں مجتمع کرنے اور مزید ہتھیاربندی کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اور حالیہ ہفتوں میں اْس نے تین بڑے شہروں میں نئے حملے کئے ہیں، اور بیسیوں شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ ان میں پاکستانی معیشت کی شہ رگ کراچی بھی شامل ہے،جہاں مرنے والوں میں انسداد دہشت گردی کا ایک اعلیٰ افسر شامل تھا۔

اخبار کے مطابق اپنی انتخابی مہم کے دوران، نواز شریف نے طالبان کو نظرانداز کیا تھا۔ اور مقتدر امریکی سیاسی اور سٹریٹیجک ماہر، انتھونی کور دیز من کی نظر میں اْن کا پیغام یہ تھا کہ امریکہ کے ساتھ محدود نوعیت کا تعاون کیا جائے گا، پاکستان کے سابقہ لیڈروں کی طرح نواز شریف نے بھی سبق سیکھ لیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کرنے یا اقتدار میں شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

یہ وْہ دہشت گرد ہیں، جو شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، اور جنہیں شکست دینا ضروری ہے۔اخبار کہتا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا اس طرح سر اْٹھانا پڑوسی افغانستان کے لئے ایک خطرہ ہے، جہاں سے بیشتر امریکی فوجیں اس سال کے اواخر تک انخلاکرنے والی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی برابر اس سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں جس کے تحت دس ہزار امریکی فوجی اس سال کے بعد بھی وہاں متعین رہیں گے۔