طالبان ثالثی کمیٹی میں ایک اور شگاف، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام کے بعد خطیب لال مسجد بھی مذاکرات سے علیحدہ ہوگئے، طالبان حکومت میں اصل تنازعہ شریعت کا نفاذ ہے، شق شامل کئے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے،مولانا عبدالعزیز ، مولاناعبدالعزیزنے جوکچھ کہاوہ غلط نہیں، ابھی بھی نفاذشریعت کیلئے ہی مذاکرات کریں گے ،شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظورہوتاتوجنگ ہی نہ کرتے ،ترجمان کالعدم تحریک طالبان

ہفتہ 8 فروری 2014 08:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8فروری۔2014ء)طالبان ثالثی کمیٹی میں ایک اور شگاف، تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام کے بعد خطیب لال مسجد بھی مذاکرات سے علیحدہ ہوگئے،مولانا عبدالعزیز نے کہاہے طالبان حکومت میں اصل تنازعہ شریعت کا نفاذ ہے، شق شامل کئے بغیر مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے، بہرہ ہوکر بے وقعت مذاکراتی عمل میں شامل ہوکر وقت برباد نہیں کرسکتا ، قرآن و سنت پرکسی مذہب و مسلک یا جماعت کو اختلاف نہیں، آئین کی بجائے قرآن کی شرط رکھی جائے ، اگر طالبان قرآن و سنت کا انکار کریں گے تو حکومت کیساتھ ملکر جہاد کرونگا، آئین اسلامی نہیں حکمرانوں نے اپنے مقاصد کیلئے بنایا،آئین کی وجہ سے ملک مسائل کی آماجگاہ بن گیا،پورا نظام غیر اسلامی ہے،بساط لپیٹی جائے، شریعت کے نفاذ کیلئے ضروری ہے عدلیہ و مقننہ کو صحیح معنوں میں اسلامی بنایا جائے، دونوں اداروں میں بیٹھے افراد کو سورة اخلاص تک نہیں آتی، دستور قرآنی ہوتا تو کسی جرنیل کو لپیٹنے کی جرات نہ ہوتی،اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں تو دہشت گردی، قتل و غار ت و بدامنی سے چھٹکارا مل سکتاہے، طالبان کو اپنی شرط سے آگاہ کردونگا۔

(جاری ہے)

مذاکرات کے حامی ہیں کمیٹی میں شامل رہونگاجب تک خود طالبان مجھے علیحدہ نہ کردیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز لال مسجد اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا عبدالعزیز نے کہاکہ مذاکراتی عمل میں نیک نیتی او رخیر کا عمل سمجھ کر شریک ہوئے لیکن پہلے ہی اجلاس میں یہ شرط لگا کر کہ آئین کے دائرے کے اندر مذاکرات ہونگے، شریعت کے نفاذ کی بات نہیں کی جائیگی نے ابہام پیدا کردیئے ہیں اسی آئین پاکستان کی وجہ سے ملک میں بیشمار ابہام جنم لے چکے ہیں اور مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

حکمرانوں نے آئین کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اسی مقصد کیلئے بنایا۔ انہوں نے کہاکہ اگر آئین پاکستان قرآن کی روح کے مطابق ہوتا تو کوئی جرنیل اس کی مخالفت نہ کرتا مگر یہاں کچھ لوگ اسلامی قوانین کی آڑ میں شریعت کے مخالف ہیں ۔طالبان اس مروجہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے اگر آئین کی بجائے قرآن و سنت کی شرط رکھیں تو مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں نہیں تو مذاکرات میں تعطل پیدا ہوگا ۔

انہوں نے کہاکہ اس لئے ضروری ہے دستور پاکستان کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مرتب کیا جائے تو پھر ہی امن کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتاہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جو لوگ طالبان کی تعبیر و تشریح کو تسلیم نہیں کرتے نہ کریں مگر قرآن و سنت کے مخالف سنی ، بریلوی، دیوبندی ، اہلحدیث اور شیعہ سمیت کوئی بھی نہیں ہے مقننہ و عدلیہ میں بیٹھنے والے اکثر قرآنی ابجد سے واقف تک نہیں، سورة اخلاص بھی نہیں آتی ، ملک میں انگریز کا قانون نافذ ہے اسلامی کتب و قاضی القضاء کو چھوڑ کر انگریز کی کتب و ججز کے حوالے اور مثالیں پیش کی جاتی ہیں جوکہ اسلامی تعلیمات کی توہین ہے۔

آئین کی بالادستی والے اسلام کی بالادستی کی بات کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے کہاکہ طالبان اور حکومت میں اصل جھگڑا شریعت کے نفاذ کا ہے حکومتی کمیٹی کے اراکین کمال ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ملک میں 500سال تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکتا جبکہ ملک کیا قبائلی علاقوں میں بھی اسلامی قانون نہیں رائج کیا جاسکتا توپھر بتایا جائے مذاکرات کیسے آگے بڑھیں گے۔

صوفی محمد اورسوات میں کئے گئے معاہدے اس لئے پائیدار ثابت نہیں ہوئے نام کے قاضیوں کو وہاں مقررکیاگیا جنہیں عربی ادب کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے تسلیم کیا کہ طالبان میں بھی کریمنل اور بھتہ خور موجود ہیں اگر اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے تو پھر کوئی چوری، ڈکیتی، دہشت گردی ، بم دھماکے یا رہزنی نہیں کریگا ۔

اسلامی نظام و انصاف کا نظام سستا اور فوری ہے اور اگر فی الفور جرم کی سزا دی جائے گی ، قصاص کا قانون عملاً نافذ کیا جائے گا، چوری کی سزا ملے گی تو ملک میں امن کے قیام کی ضمانت میں دیتاہوں ۔اب قوم کو مزید دھوکہ نہ دیا جائے اور حقائق بتائے جائیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ برطانیہ میں سکھ بہت کریمنل تھے جس کے بعد ان کیلئے سکھ رجمنٹ بنادی گئی ایسا فارمولا یہاں بھی لاگو کیا جاسکتاہے اور طالبان رجمنٹ بنادی جائے۔

انہوں نے کہاکہ اگر طالبان اور حکومت میں قرآن و سنت کو فیصل بنایا جائے اور پھر بھی طالبان مخالفت کریں تو پھرحکومت کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف جہاد کرونگا۔ ایک اور سوا ل پر مولاناعبدالعزیز نے کہاکہ مذاکرات کے حامی ہیں کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے کمیٹی میں شامل ضرور رہیں گے لیکن عملاً مذاکراتی عمل میں اس وقت تک شریک نہیں ہونگے جب تک نفاذ شریعت کی شق مذاکراتی ایجنڈے میں شامل نہیں کی جاتی اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کرے ورنہ مذاکرات صرف وقت گزارنے کی باتیں ہیں اور اگر شریعت کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاتا تو ایک فیصد بھی چانس نہیں ہے اور مذاکرات بیکار کی مشق ثابت ہونگے ۔

ایک اور سوال پر مولانا عبدالعزیز نے کہاکہ قوم کی فکری ذہنی تربیت کررہے ہیں شریعت کیلئے پہلے بھی آگاہی فراہم کی آئندہ بھی اپنی مہم جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ ہماری شریعت قرآن ہے 65سال فرسودہ نظام نے جکڑ کر رکھا ہے اس نظام کا لپیٹا جانے میں ہی عافیت ہے اور اسلامی نظام کو عدلیہ و مقننہ میں نافذ کیا جائے ۔اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں شہداء فاؤنڈیشن کے وکیل طارق اسد نے کہاکہ اگر آئین کے آرٹیکل 203/Bمیں شق C کو شامل کیاجائے تو شریعت نافذ ہوجائیگی ، وفاقی شرعی عدالت میں علماء کا تقرر کیا جائے اور سپریم کورٹ کے برابر اس کا درجہ ہو اور اس کا فیصلہ حتمی ہوتو بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جب فوج، پالیسی ساز ادارے اور اور حکومت ایک پیج پر اکٹھے ہوجائینگے تو اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ ملک میں اعتماد کا فقدان ہے ملک میں قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیے یہاں جرنیلوں کیلئے ایک درخواست پر ریلیف دے دیا جاتا ہے اس لئے اس نظام کے مخالف ہیں کیوں کہ یہاں قانون سب کیلئے یکساں نہیں ہے ۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہاکہ حکومت ایجنڈے پر نظر ثانی کرے انہوں نے کہاکہ طالبان سے مذاکرات کیلئے وزیرستان نہیں جاؤنگا کیونکہ میں گونگا یا بہرہ نہیں ہوں اس تنازعہ کو ہٹا کر کیونکر مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں اس لئے ملکی سلامتی کیلئے سب کو اکٹھا ہونا ہوگا اور ہمارے ملک کی بقا قرآنی دستور میں ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ملک میں امن کیلئے مذاکرات کے حامی ہیں آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ، کمیٹی کا حصہ ہوں اور اس وقت تک رہونگا جب تک طالبان خود مجھے اس کمیٹی سے علیحدہ نہ کردیں۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے کہاہے کہ مولاناعبدالعزیزنے جوکچھ کہاوہ غلط نہیں ابھی بھی نفاذشریعت کیلئے ہی مذاکرات کریں گے ،شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظورہوتاتوجنگ ہی نہ کرتے ۔جمعہ کوایک بیان میں کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہدنے کہاکہ حکومت سے مذاکرات کااصل مقصدشریعت کانفاذہی ہے ۔مولاناعبدالعزیزنے جوکچھ کہاوہ غلط نہیں ہے ،ہم اب بھی شریعت کیلئے ہی مذاکرات کریں گے ۔

انہوں نے کہاکہ مولاناعبدالعزیزاب بھی ہمارے نمائندے ہیں ۔مولاناسمیع الحق کی زیرقیادت کمیٹی سے چنددن میں ملاقات ہوگی اورنمائندہ کمیٹی سے ملاقات کے بعدمزیدفیصلے کریں گے ان کاکہناتھاکہ اگرشریعت کے علاوہ کوئی اورقانون منظورہوتاتوپھرجنگ ہی نہ کرتے۔کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ اگر طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظور ہوتا تو جنگ ہی نہ کرتے۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کااصل مقصد شریعت کے نافذ کے لیے ہے،ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ شریعت کے لیے ہی لڑ رہے ہیں۔ابھی جو ہم مذاکرات کریں گے تو وہ شریعت ہی کے لیے کریں گے۔حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے پیش کی گئی تجاویز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان پر غور کیا جا رہا ہے تاہم مزید فیصلے وہ اپنی نمائندہ کمیٹی سے ملاقات کے بعد کریں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ ساری باتیں جب ہم ان (طالبان کمیٹی) سے ملاقات کریں گے تو پوری طرح ان پر واضح کریں گے، ابھی یہ باتیں قبل از وقت ہیں۔اس سوال پر کہ ملک میں پہلے سے نافذ آئین و قانون سے انکار کے بعد شریعت کے نفاذ کے لیے بات چیت کیسے آگے بڑھے گی؟شاہد اللہ شاہد کا جواب تھا کہ ’یہ بہت آسان سی باتیں ہیں پہلی بات تو یہ ہے جن کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں وہ سب دعوی کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے تو یہ کسی مسلمان کے لیے یہ مشکل نہیں ہے۔

اب ہم امریکہ سے مطالبہ کریں کہ وہ شریعت نافذ کرے تو یہ ان کے لیے مشکل ہوگا لیکن یہ لوگ تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔طالبان ترجمان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے دی گئی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے تاہم وہ ابھی اس پر ردعمل دینا نہیں چاہتے۔ان کا کہنا تھا کہ دو مخالف گروہوں کی جانب سے مذاکرات میں مختلف مطالبات کیے جائیں گے۔ ’لیکن ہم مطمئن ہیں کہ شریعت کے نفاذ کے لیے یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی سے ان کی ملاقات آئندہ چار سے پانچ دن میں ہو جائے گی۔مولانا عبدالعزیز کی مذاکرات میں شمولیت سے انکار کے بعد نمائندہ کمیٹی کے بارے میں شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا وہ اب بھی ان کے نمائندے ہیں اور ان کی مشکلات بھی دور ہو جائیں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مولانا عبدالعزیز کا کہنا غلط نہیں ہے۔

اس سے قبل امن مذاکرات کے لیے طالبان کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی کے رکن اور لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز نے مذاکراتی کمیٹی کے نکات میں شریعت کے نفاذ کی شرط کی شمولیت تک مذاکرات سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ جب تک مذاکرات میں شریعت کے نفاذ پر بات نہیں کی جاتی وہ مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

انھوں نے کہا: ’ہم مذاکرات سے علیحدہ نہیں ہوئے لیکن تب تک مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک حکومتِ پاکستان وعدہ نہ کرے کہ آئین پاکستان نہیں بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں مذاکرات ہوں گے۔عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’حکومت اسلامی یا شرعی نظام کے نفاذ کا وعدہ کرے گی تو میں مذاکرات کا حصہ بنوں گا۔انھوں نے کہا کہ ’میں کمیٹی کا حصہ رہوں گا جب تک طالبان مجھے کمیٹی چھوڑنے کو نہیں کہتے مگر میں مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنوں گا۔

یاد رہے کہ حکومت اور طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے پہلے اجلاس کے بعد جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے طالبان سے کہا ہے کہ تمام بات چیت پاکستان کے آئین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر کی جائے گی اور اس کا اطلاق صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود رہے گا۔