سینٹ میں اپوزیشن نے حکومت اور طالبان کے مذاکرات کو گھوسٹ باکسنگ قرار دیدیا،حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ،حکومت اور فوجی قیادت ایک صفحہ پر نہیں ،حکومت پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتی یہ مذاق رات ہورہی ہے یا مذاکرات؟ اپوزیشن، حکومت کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے پر مذاکرات کررہی ہے فوج اور سویلین حکومت کا موقف یکساں ہے ، راجہ ظفر الحق،حکومتی رکن ساجد میر نے بھی غیر جانبدار افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنانے کا مطالبہ کر دیا

جمعہ 7 فروری 2014 08:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7فروری۔2014ء) سینٹ میں اپوزیشن نے حکومت اور طالبان کے مذاکرات کو گھوسٹ باکسنگ قرار دیتے ہوئی اور پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جانب سے ایسا ردعمل ملا ، اس حوالے سے حکومت اور فوجی قیادت ایک صفحہ پر نہیں ہے ، امن وامان قائم کرنے والے اداروں سے مشاورت نہیں کی جارہی ہے ، حکومت پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتی یہ مذاق رات ہورہی ہے یا مذاکرات؟ جبکہ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حکومت کل جماعتی کانفرنس کے فیصلے پر مذاکرات کررہی ہے فوج اور سویلین حکومت کا موقف یکساں ہے ،حکومتی رکن ساجد میر نے بھی موجودہ کمیٹیوں کی بجائے غیر جانبدار افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنانے کا مطالبہ کر دیا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو ایوان میں امن وامان کی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹرافرسیاب خٹک نے کہا کہ موجودہ حکومت کے گزشتہ آٹھ ماہ میں فسادات دھماکے بڑھے ہیں چھ ماہ تک نہ مذاکرات ہوئے نہ کچھ اور ہوا ابھی جو شروع ہوا اس میں دونو ں مذاکراتی ٹیموں میں دونوں فریقین کے نمائندے نہیں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گھوسٹ باکسنگ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس دہشتگردی کیخلاف کوئی پالیسی نہیں ہے انہیں پتہ ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے ۔

افراسیاب خٹک نے مطالبہ کیا کہ خضدار اجتماعی قبر کی تحقیقات کرنی چاہیے، بلوچستان میں اہم ریاستی ادارے حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں، فاٹا میں صدر مملکت سمیت کوئی بھی نہیں گیا وہاں کے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں فاٹا کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ نجکاری کے حوالے سے افراسیاب خٹک نے کہا کہ نجکاری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے حکومت مختلف اداروں کے بارے میں اپنی پالیسیاں بتائے پبلک سیکٹر کا ایک رول ہے لہذا اس کو بہتر طریقے سے چلانا چاہیے اداروں کو جان بوجھ کر ویٹ لیز پر چلایا جارہا ہے یہ شرمناک ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 2014ء کا امریکی انخلاء کے بارے میں پالیسی بنائی جائے اس پر سب پارٹیوں سے مل کر پالیسی بنائی جائے ہماری افغان پالیسی ضیاء دور کی ہی چل رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ نئے کنکشن بنارہے ہیں مگر ہم پرانے راستے بھی بند کررہے ہیں جمہوری کلچر کو مضبوط کیا جانا چاہیے مگر حکومت پارلیمنٹ کو پس پشت ڈال رہی ہے دہشت گردی و اقتصادی بحران کے حل کیلئے پالیسی بنائی جائے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل ریٹائرڈ طاہر مشہدی نے کہا کہ موجودہ حکومت کا کوئی وژن نہیں ہے عوام سہولیات سے اب تک محروم ہیں میڈیا ٹیپ چل رہی ہے سمجھ نہیں آتا کہ طالبان کے ساتھ مذاق رات ہیں کہ مذاکرات؟ عمران خان اور جے یو آئی (ف) مذاکرات سے نکل گئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین کی پامالی کرنیوالے اورہتھیار اٹھانے والے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کئے جارہے ہیں جنہوں نے پاک فوج کے جوانوں کو شہید کیا ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے آپ کو منظم کرنے کیلئے مذاکرات کررہے ہیں تاکہ سردیوں کے دو مہینے گزارنے کے بعد وہ دوبارہ سوات جیسا حشر کریں طالبان مذاکرات ٹیم کے نمائندے کسی کی جان نہیں لیتے ۔ طاہر مشہدی نے کہا کہ طالبان کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات آئین کا مذاق ہے مذاکرات کے باوجود لوگ مارے جارہے ہیں اور چار دھماکوں کے بعد ہم خوش ہورہے ہیں کہ یہ دھماکے طالبان نے نہیں کئے ۔

انہوں نے کہاکہ اگر طالبان دھماکے نہیں کررہے تو پھر مذاکرات کیوں ؟ حکومت امن وامان کی صورتحال بہتر کرے کیونکہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے ۔ سینیٹر سعید حسن مندوخیل نے کہا کہ ہر چیز کو سیاست کی نظر نہیں کرنا چاہیے امن کے لیے اچھا چانس ملا ہے اس سے میں فائدہ اٹھانا چاہیے بلوچستان میں ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے ۔

جے یو آئی (ف) کے سینیٹر محمد طلحہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں معیشت کو بہتر کرنے کیلئے امن وامان کو بہتر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فورسز کو مضبوطی نہیں دے پا رہی جس کی ضرورت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 30فیصد بجٹ کٹ گئے ہیں جبکہ دشمن کئی گنا مضبوط ہے ملکی مسائل کے حل کیلئے امن وامان کو یقینی بنانا ہوگا ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آرہی جس کی بڑی وجہ امن وامان کی خراب صورتحال ہے ۔

طلحہ محمود نے کہا کہ امن وامان کی مخدوش صورتحال کا سبب ایک چھپی ہوئی لابی ہے جو دہشت گردوں کے مالی وسائل اور سازوسامان فراہم کررہی ہے را اور موساد ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ ملک میں بہتری آئے ایسی باتیں گردش میں ہیں کہ کئی ہزار افراد سی آئی اے کیلئے کام کررہے ہیں اسلام آباد میں موجود غیر ملکی ایجنسیوں کے اڈوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔

سینیٹر عبدالرؤف نے کہا کہ ملک میں ادارے دہشتگردی کی وجہ سے خسارے میں جارہے ہیں ملک میں گڈ گورننس کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے صورتحال بدتر ہوئی مرکز کے کئے گئے فیصلوں سے صوبائی حکومتوں کواعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کیاجائے گا تو لوگ دہشتگردی کی طرف گامزن ہوں گے ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیراعظم کی اسمبلی میں تقریر زبردست تھی مگر آخرمیں اچانک مذاکرات کی بات کردی ، مذاکراتی کمیٹی کے بننے کے بعد پشاور میں دھماکہ ہوا اور جند اللہ نے ذمہ داری قبول کرلی اور طالبان نے اس گروپ سے اظہار لاتعلقی کردیا کل ٹی ٹی پی نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ہمارے ملٹری اور سول لیڈر شپ کے درمیان تعلقات کا فقدان ہے وزیر داخلہ اس بات کا پہلے اعتراف کرچکے ہیں موجودہ مذاکرات میں اس چیز کو نظر انداز کیا گیا ہے جب تک اس چیز کو فوکس نہیں کیا جائے گا مذاکرات میں کامیاب نہیں ہوں گے انہوں نے وزیر مملکت شیخ آفتاب کے نیوکلیائی ری ایکٹر کے بارے بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔

انہوں نے کہا کہ ان کو یہ بیان واپس لے لینا چاہیے ۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ طالبان مذاکرات کے حوالے سے ماضی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروائی گئی جس میں کہا گیا کہ ملک کے آئین کے دائرہ کار میں وہ مذاکرات کریں موجودہ حکومت تمام شراکت داروں کی مشاورت سے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس مشاورت کے نتیجے میں آج کے بعد مذاکرات ہورہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے تاہم ملکی سطح پر کوئی اہمیت نہیں ہے یہ کہنا درست نہیں کہ مشاورت نہیں کی گئی ۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ تمام چیزیں موجودہ مذاکرات پر منحصر ہیں موجودہ حکومت کو ووٹ ہی اس لئے ملے کہ وہ ملک میں امن وامان لے کر آئے گی موجودہ کمیٹی کی تشکیل سے انداز لگایا جاسکتا ہے کہ کسی سے مشاورت نہیں کی گئی ورنہ عرفان صدیقی چیئرمین نہ ہوتے جس پر طالبان نے بھی حکومتی کمیٹی کو ایسا ریسپان دیا موجودہ مذاکراتی ٹیمیں ضیاء دور کی کمیٹی ہیں مذاکرات کے حوالے سے امریکہ ، ایران ، افغانستان ، چین اور اچھے طالبان کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا موجودہ مذاکرات قوم کے ساتھ مذاق ہیں کیونکہ ان میں سنجیدگی نہیں ہے ایم آئی ، آئی ایس آئی کے ساتھ مشاورت کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ پارلیمان کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی اور ایک دن پہلے آرڈیننس جاری کردیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دی گئی تو پھر کہا جائے گا کہ سیاسی پارٹیاں حالات خراب کرنے کی ذمہ دار ہیں ۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ پارلیمان کو انڈرمائن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مذاکرات میں کچھ لینا دینا ہوتا ہے مگر آئین کے دائرہ کار میں رہ کر ہم طالبان کو کیا دینگے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اکنامک پالیسی آئی ایم ایف کے کہنے پر چل رہی ہے تو کیا خارجہ پالیسی اب طالبان کے کہنے پر بنائی جائے گی ہمیں اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کرنا کیا ہے یہ وقت ہم پاکستان کے بہتر مفاد میں فیصلے کریں ۔

اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ نائن الیون سے لیکر اب تک جیتنے نقصانات ہوئے ہیں ان کو وفاقی حکومت ادا کرے انہوں نے کہا کہ امن وامان صوبوں کامسئلہ ہے مگر یہ سب بیرونی جارحیت کا نتیجہ ہے جو لوگ خیبر پختونخواہ سے ہجرت کررہے ہیں ان کو دیگر صوبوں میں عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔انہوں نے کہا کہ پختونوں کی قوم کو تباہ کیا جارہا ہے پی ٹی آئی ٹیسٹ میچ کھیلنا بند کرے لوگ خیبر پختونخواہ سے طالبان کی وجہ سے ہجرت کررہے ہیں مگر صوبائی حکومت چپ ہے جب ہم نے افغانستان جہاد کے بارے میں بات کی تو ہمیں ملک دشمن کہا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ جہاد کے نام پر لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں مگر ان کے لیے صوبائی حکومت بات کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ فاٹا کے سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ موجودہ طالبان افغان وار کے ہیرو ہیں ان سب کو تربیت ہم نے ہی دی ہے طالبان کی حکومت کو اسی پاکستان نے تسلیم کیا تھا اور اسی حکومت کے سفیر کو امریکہ کے حوالے کیا ۔ انہوں نے کہا ک یہ دہشتگرد ہم نے خود بنائے ہیں ہم نے امریکہ کے ایک اشارے پر سولہ سال سے اپنی پالیسی بدل دی ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ہی ایسی ناقص ہے جس کی وجہ سے ہم دہشتگردی کا شکار ہوئے ۔ جنوبی وزیرستان میں پانچ سال سے فوج موجود ہے مگر حالات قابو میں نہیں ہیں اگر وہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں تو باقی ملک میں کنٹرول کیسے ہوں گے ؟ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر دہشتگردی روکنا نہیں چاہتی ۔موجودہ ماحول مذاکرات کے لئے سازگار ہے تنقید کی بجائے کامیابی کیلئے کوشش کرنی چاہیے تاکہ مسائل کا حل نکلے ۔ سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ حکومت اور طالبان مذاکرات کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں پر اپوزیشن کی تنقید کو درست لیں دونوں طرف سے غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے ۔