حکومت اور طالبان کی نامزد کمیٹیوں کے تین گھنٹے سے زائد دیر تک پہلے مذاکرات،طالبان کمیٹی کا وزیراعظم، آرمی چیف اورڈی جی آئی ایس آئی سے اور حکومتی کمیٹی کا طالبان رہنماؤں سے براہ راست ملاقات کا مطالبہ،امن و سلامتی کے مفاد میں دونوں فریق کسی مسلح کارروائی سے گریز کریں اور بات چیت کو موثر انداز میں منطقی نتیجہ تک پہنچایا جائے،کمیٹیوں کا اتفاق،دونوں کمیٹیوں نے ایک دوسرے کا دائرہ اختیار چیلنج کر دیا،وضاحتیں طلب،خوشی ہے کہ ہماری توقعات سے بڑھ کر خواہشات پوری ہوئی ہیں،عرفان صدیقی،حکومتی کمیٹی کے مطالبات اور ایجنڈاجلد از جلد طالبان قیادت تک پہنچا دینگے،سمیع الحق

جمعہ 7 فروری 2014 08:00

اسلام آباد(رحمت اللہ شباب۔ اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7فروری۔2014ء)حکومت اور طالبان کی نامزد کمیٹیوں کے تین گھنٹے سے زائد دیر تک پہلے مذاکراتی مرحلہ میں طالبان کی کمیٹی نے وزیراعظم نوازشریف، آرمی چیف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سے اور حکومتی کمیٹی نے طالبان رہنماؤں سے براہ راست ملاقات کے مطالبات پیش کر دیئے ہیں جبکہ اتفاق کیا گیا ہے کہ امن و سلامتی کے مفاد میں دونوں فریق کسی مسلح کارروائی سے گریز کریں اور بات چیت کو موثر انداز میں منطقی نتیجہ تک پہنچایا جائے اور حکومتی کمیٹی نے سیاسی رہنماؤں اور طالبان کی اپنی 9رکنی کمیٹی کے دائرہ کار کے بارے میں وضاحت بھی طلب کر لی ہے اور اس کے جواب میں طالبان کمیٹی نے بھی حکومتی کمیٹی کے اختیارات کو چیلنج کیا ہے۔

جمعرات کو یہاں خیبر پختونخوا ہاؤس میں حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کے بارے میں پہلا اجلاس ہوا جو تین گھنٹے تک جاری رہا اور دونوں فریقوں نے انتہائی خوشگوار ماحول میں ہونیوالی اس بات چیت پر مکمل اطمینان کااظہار کیا ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات میں طے پایا ہے کہ مذاکرات صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے دائرہ کار اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہوگی،مذاکرات کا دائرہ صرف شورش زدہ علاقوں اور وہاں سے متعلقہ افراد تک محدود ہوگی پورے ملک پر نہیں،امن و سلامتی کے منافی کارروائیاں بند کی جائیں اور طالبان نے جو چار رکنی کمیٹی اور اس پر نگران 9رکنی کمیٹی بنائی ہے ان دونوں کمیٹیوں کے دائرہ کار کی وضاحت کی جائے۔

مذاکرات میں اس امر پر بھی زوردیاگیا کہ بات چیت کا یہ عمل مختصر عرصہ کیلئے ہونا چاہئے ۔طالبان کمیٹی کی طرف سے بھی یہ وضاحت مانگی گئی کہ حکومتی کمیٹی کا دائرہ اختیار کیا ہے اس کی وضاحت کی جائے،یہ کمیٹی طالبان کے مطالبات منوانے کے حوالہ سے کتنی صلاحیت رکھتی ہے اور اتفاق کیا گیا کہ کسی طرف سے کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو قیام امن کے لئے ہونے والے ان مذاکرات کی کوششوں کیلئے نقصان دہ ہو۔

دونوں کمیٹیوں نے مطالبات ایک دوسرے کو پیش کردیئے ، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی کے کوآرڈنیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم جو امیدیں اور خواہشات لے کر آئے تھے ہمیں خوشی ہے کہ ہماری توقعات سے بڑھ کر خواہشات پوری ہوئی ہیں طالبان کمیٹی نے بڑی خوش دلی کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کیا ہے اور ہماری باتیں سننے کے بعد ہمارے تحفظات پر اظہار خیال کیا اور پھر اپنی طرف سے بھی کچھ نکات پیش کیے ۔

انہوں نے کہا کہ افہام وتفہیم اور خیر سگالی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں پتہ چلتا تھا کہ ہم دو نہیں ایک ہی کمیٹی ہیں اور ہمارا ایک ہی منشور اور ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کو بدامنی سے نجات دلانی ہے اور امن اور اسلامی تعلیمات کو ایسا گہوارہ بنانا ہے جہاں میں سب امن و آشتی کے ساتھ رہ سکیں ۔ انہوں نے مولانا سمیع الحق اور طالبان کمیٹی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آگے کا لائحہ عمل طے کردیا ا ور ایک بڑے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی سود مند گفت و شنید ہوئی۔

اس موقع پر طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے مشترکہ بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ حکومت اور طالبان کی قائم کردہ کمیٹیوں کے پہلے اجلاس میں طالبان کی قائم کردہ کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق ، مولانا عبدالعزیز ، پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ جبکہ حکومتی کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی میجر ریٹائرڈ محمد عامر، رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شریک ہوئے۔

اجلاس کے آغاز میں عرفان صدیقی نے طالبان کمیٹی کو وزیراعظم کے عزم کا حوالہ دیا کہ وہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ مذاکراتی عمل کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور مولانا سمیع الحق نے اس کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ہم امن کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہمیشہ ہر قسم کی قتل وغارت گری کے خاتمے کے لیے کوشاں رہے تاکہ پاکستان اسلامی تعلیمات کے مطابق امن کا گہوارہ بن سکے ۔

تمام اراکین نے فرداً فرداً اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مذاکرات کی کامیابی کے لئے اپنی تجاویز دیں حکومتی کمیٹی نے مذاکرات کی ٹھوس بنیاد کے لیے پیش کئے گئے نکات میں کہا کہ بات چیت مکمل طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اسلامی حدود اور تقاضوں کے اندر ہونی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ گفتگو اور ملاقات کا دائرہ شورش زدہ علاقوں ، افراد اور قیام امن سے متعلقہ معاملات تک محدود ہوگا اور اس کا دائرہ پورے پاکستان پر محیط نہیں ہوگا تیسرا مذاکرات کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ امن و سلامتی کے منافی تمام کارروائیوں کا سلسلہ فوری طورپر بند ہونا چاہیے ، چوتھا یہ کہ طالبان نے اس کمیٹی کے علاوہ ایک اور کمیٹی قائم کی ہے ان دونوں کمیٹیوں کا دائرہ کار واضح ہونا چاہیے اور کیا ہمیں اس کمیٹی سے بھی بات کرنی ہوگی ،پانچواں یہ کہ مذاکرات کا عمل طویل نہیں ہونا چاہیے قوم اچھی خبر کی منتظر ہے اس لیے یہ عمل مختصر ترین مدت میں مکمل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی قائم کردہ کمیٹی نے اپنے تحفظات میں کہا کہ حکومت کا دائرہ کار اور مینڈیٹ کتنا ہے اس کی وضاحت کی جائے دوسرا یہ کہ اس وقت کمیٹی مطالبات منوانے کی کس حد تک صلاحیت رکھتی ہے ۔ تیسرا یہ کہ طالبان کمیٹی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی ملاقات وزیراعظم ، چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی کرائی جائے تاکہ یہ کمیٹی اپنے مشن کے سلسلے میں اصولی وضاحت کے بعد کام کرسکے ۔

دونوں کمیٹیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کسی بھی طرف سے ایسی کارروائی نہیں ہونی چاہیے جس سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچے اور گزشتہ دنوں ہونے والے پرتشددواقعات کی مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کے واقعات امن عمل میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے ۔ طالبان کمیٹی نے واضح کیا کہ حکومتی کمیٹی کے مطالبات اور ایجنڈا کے نکات جلد از جلد طالبان قیادت تک پہنچا دیئے جائینگے اور ان کے موقف سے حکومتی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہو گا ۔

حکومتی کمیٹی نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ طالبان کی اعلیٰ قیادت سے براہ راست رابطہ اورملاقات چاہے گی دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات کی کامیابی کا یقین دلایا اور قوم سے دعا کی اپیل کی ہے ۔دوسری جانب واقفِ حال ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی نے طالبان کی ثالثی کمیٹی سے استفسار کیا کہ وہ کس حد تک طالبان سے مطالبات پر عملدرآمد کراسکتے ہیں جبکہ انہوں نے اس حوالہ سے حکومتی کمیٹی کے دائرہ اختیار کے بارے میں سوالات کئے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ذرائع نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ کمیٹی کی اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ میڈیا میں متنازعہ امور کو نہیں اٹھایا جائے گا اور ان معاملات کوہی رکھا جائے گا جن پر دونوں فریقوں کا اتفاق رائے ہو تاکہ افہام و تفہیم کی فضا برقرار رہے۔