جماعت اسلامی کا مذاکراتی ٹیم میں رہنے کا اصولی فیصلہ ،کوشش کرینگے کہ مذاکرات سبوتاژ نہ ہوں، طالبان کو گرفتاریوں و ڈرون حملوں کا خطرہ ہے، پروفیسر ابراہیم، فریقین کو امن کی میز پر لانا چاہتے ہیں، اکٹھے بیٹھیں گے تو مذاکرات سے دہشت گردی کے خاتمے کا حل ڈھونڈ لیں گے،صحافیوں سے گفتگو

جمعرات 6 فروری 2014 02:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6فروری۔2014ء) جماعت اسلامی نے آخر کار مذاکراتی ٹیم میں رہنے کا اصولی فیصلہ کرلیا، پروفیسر ابراہیم نے کہاہے کہ کوشش کرینگے کہ مذاکرات سبوتاژ نہ ہوں، طالبان کو گرفتاریوں و ڈرون حملوں کا خطرہ ہے، فریقین کو امن کی میز پر لانا چاہتے ہیں، اکٹھے بیٹھیں گے تو مذاکرات سے دہشت گردی کے خاتمے کا حل ڈھونڈ لیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کی شام اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما وطالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہاہے کہ جماعت اسلامی نے مذاکراتی کمیٹی میں شامل رہنے کا فیصلہ کیاہے کیونکہ ہم معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ طالبان کو ڈرون حملوں اور گرفتاریوں کا خطرہ ہے اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ طالبان حکومت مذاکرات سبوتاژ نہ ہوں اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت طالبان جلد امن مذاکرات کی میز پر اکٹھے بیٹھ جائیں کیونکہ فریقین ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے تو بات چیت سے ہی دہشتگردی کے خاتمے کا حل ڈھونڈاجاسکتاہے۔ ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ اگلے دو روز میں حکومتی اراکین سے ملاقات متوقع ہے۔

اس سے قبل بدھ کی صبح جب اس سلسلے میں سید منور حسن سے صحافیوں سے استفسار کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا اور مکمل چپ سادھ لی تھی کہ جماعت اسلامی مذاکراتی ٹیم کا حصہ رہے گی یا نہیں رہے گی لیکن بالآخر امیر جماعت اسلامی نے فیصلہ کرہی لیا کیونکہ جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ معاملات صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کئے جاسکتے ہیں اور فوجی آپریشن کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔