امریکہ نے پاکستان میں ڈرون حملے محدود کردئیے‘ امریکی اخبار،طالبان کیساتھ مذاکرات شروع کرنے کے بعد پاکستانی حکومت نے امریکہ سے ڈرون حملوں میں کمی کی درخواست کی تھی‘ دسمبر 2013ء کے بعد کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا جو 2011ء کے بعد طویل وقفہ ہے‘ واشنگٹن پوسٹ کا امریکی حکام کے حو الے سے دعویٰ،پاکستان سے ڈرون حملے محدود کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا‘ امریکی اہلکار،اوباما انتظامیہ کا یہ فیصلہ تشویشناک‘ امریکی فوجی اور عوام غیر محفوظ ہوگئے‘ انٹیلی جنس سربراہ

جمعرات 6 فروری 2014 02:05

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6فروری۔2014ء) امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے حکومت پاکستان کی درخواست پر ڈرون حملے محدود کردئیے ہیں اور اس سلسلے میں دسمبر 2013ء کے بعد کوئی حملہ نہیں ہوا جوکہ 2011ء کے بعد وقفے کا طویل دورانیہ ہے۔ دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس ادارے نے اوباما انتظامیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے امریکی فوج اور شہری محفوظ ہوگئے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا کہ حکومت پاکستان نے طالبان کیساتھ مذاکرات شروع کرنے کے بعد امریکہ سے ڈرون حملے محدود کرنے کی درخواست کی تھی جس کا مثبت جواب دیتے ہوئے اوباما انتظامیہ نے ڈرون حملے محدود کردئیے ہیں۔امریکہ کی طرف سے گذشتہ سال دسمبر سے ڈرون حملوں میں وقفے کی وجہ پاکستان کے سیاسی خدشات ہیں۔

(جاری ہے)

2011 میں پاکستان کے سلالہ چیک پوسٹ پر فضائی حملے کے بعد ڈرون حملوں میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے وقفے کے بعد ڈرون حملوں میں یہ سب سے لمبا وقفہ ہے۔ڈرون حملوں میں موجودہ کمی نومبر میں ڈرون حملے میں تحریکِ طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کی گئی جب پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان کے مذاکرات کی کوششیں ابتدائی مرحلے میں تھیں۔

اس حملے کے بعد طالبان نے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا ا ور پاکستان کی حکومت نے امریکہ پر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ دوسری جانب ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کو محدود کرنے کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی غیر رسمی معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ’طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ مکمل طور پر پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔

امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’امریکی انتظامیہ افغانستان کے میدان جنگ اور اس سے باہر کے اطراف میں متحرک دشمن کی طرف سے خطرات کی، ہماری انسدادِ دہشت گردی کے مقاصد اور قانون اور پالیسی کے معیار کے مطابق، نشاندہی کرکے اسے ختم کرنے کے عمل کو جاری رکھے گی اور یہ اطلاعات غلط ہیں کہ ہم پاکستان میں امن مذاکرات کی حمایت میں اپنے پالیسی کو بدلنے پر متفق ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ خیال رہے کہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل ایک بار پھر شروع کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی اور طالبان کی کمیٹی کے درمیان منگل کو ملاقات ہونا تھی لیکن حکومت کی کمیٹی نے منگل کے اجلاس کو یہ کہہ کر ملتوی کر دیا کہ اسے طالبان سے کچھ وضاحتیں درکار ہیں جن کے بعد ہی مذاکرات فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔

ادھر امریکی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے ڈرون حملوں کو محدود کرنے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اوباما کے فیصلے سے امریکی شہری اور افواج دونوں غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی امریکا کو درپیش خطرات کے حوالے سے دفاعی اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے بیانات ریکارڈ کررہی ہے، انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین مائک روجرز نے اپنے بیان میں اوباما انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما کے فیصلے کے بعد ایسے افراد جو امریکا کے خلاف حملوں یا اس کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے، بالکل آزاد ہوگئے ہیں اور ہمارے دفاعی پیشہ ور ماہرین مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اوباما نے دفاعی پالیسی میں تبدیلیوں پر جو کچھ کہا وہ تقریروں میں تو اچھا لگتا ہے تاہم اس سے نہ صرف امریکا میں بسنے والے شہریوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہوگئی ہیں بلکہ بیرون ممالک میں موجود امریکی فوجیوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور یہ سب ہمارے اتحادیوں کے لئے بھی بہت پریشان کن ہے۔ گزشتہ ہفتے صدر اوباما نے اسٹیٹ آف یونین سے اپنے خطاب میں ڈرون حملوں کی حدبندی کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ ملکوں میں ڈرون کی مخالفت بڑھی تو ہم بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔