حکومت کو نجکاری کا شوق ہے اسلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بھی نجکاری کردی گئی ہے،رضا ربانی،کوئی بھی حکومتی رکن مذاکراتی ٹیم میں شامل نہیں ،حکومت وضاحت کرے کہ مذاکرات کیلئے کیا طریقہ کار ہو گا،پارلیمانی لیڈر پی پی پی

بدھ 5 فروری 2014 04:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5فروری۔2014ء)سینٹ میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ حکومت کو نجکاری کا شوق ہے اسلئے لگتا ہے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بھی نجکاری کردی گئی ہے،کوئی بھی حکومتی رکن مذاکراتی ٹیم میں شامل نہیں ہے،حکومت وضاحت کرے کہ مذاکرات کیلئے کیا طریقہ کار ہوگا ،اپوزیشن کے مذاکرات کے حوالے سے حکومت سے سوالنامے پر جواب طلب،مذاکراتی عمل کے پیش نظر حکومت کو چار ڈیمانڈ پیش کردیں۔

(جاری ہے)

منگل کے روز چےئرمین سینٹ نےئر حسین بخاری کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں دہشتگردی کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اس معاملے پر دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی بنائی جائے،انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکی،لوڈشیڈنگ بھی ہورہی ہے اور امن وامان کی صورت حال بدتر ہو چکی ہے،پہلے تو دہشتگردی کی بات ہوتی تھی مگر اب تو حکومت خاموش تماشائی بن چکی ہے،نیٹو سپلائی رکنے کے معاملے پر حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی اور اپنی رٹ کو ختم ہوتے دیکھتی رہی نہ اسکی اپوزیشن کی نہ اس کو بحال کیا،بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ جوں کا توں موجود ہے اور اب اس کو پروٹیکشن آرڈیننس کے ذریعے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک مسخ شدہ لاشیں بند نہیں ہونگی،انہوں نے کہا کہ کیا ملک ے اندر اینٹی دہشتگردی قانون نہیں ہے،دیگر قوانین کے اندر شقیں موجود نہیں ہیں پھر پی پی او کو لاکر حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے،یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے،رضا ربانی نے کہا کہ ایک قانون کے تحت شک وشبہ میں کسی بھی شخص کو گولی ماری جاسکتی ہے اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جاسکتا ہے،انہوں نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم میں کوئی بھی حکومتی رکن نہیں تاہم پھر بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ امن ہو اور اس کے لئے وہ مذاکراتی عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان کا سیاسی اثر ورسوخ سامنے آگیا ہے ان کی نامزدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایوان میں ان کا نمائندہ موجود ہے بعد کی نامزدگیوں کے بعد ان کے سپلنگ سیل بھی سامنے آگئے ہیں یہ بھی خوش آئند ہے،جو لوگ مذاکرات کی بات کرتے تھے جب ان کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملا تو وہ بری الذمہ ہوگئے،انہوں نے کہا کہ وہ حکومت سے اس مذاکرات کے حوالے سے کچھ سوالات کے جوابات چاہتے ہیں،طالبان سے مذاکرات کیلئے کیا پیرمیٹرز ہوں گے،حکومت کے طالبان کے علاوہ دیگر گروپوں سے مذاکرات جاری تھے،اب طالبان سے مذاکرات شروع ہونے کے بعد ان چھوٹے گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کیا لائحہ عمل ہوگا ،تیسرا سوال یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی پری کنڈیشن پر حکومتی مؤقف کیا ہے اگر فوجی شہید ہو تے رہے تو مذاکرات کا مستقبل کیا ہوگا،انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات نے طالبان کو سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دینے کی بات کی ہے اس پروفاق کا کیا مؤقف ہے،رضا ربانی نے کہا کہ خدارا وفاق کو اتنا بے بس نہ بنائیں کہ واپسی ممکن نہ ہوسکے،انہوں نے کہا کہ اگر امن آئے تو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر مذاکراتی عمل شروع کیا جائے،انہوں نے کہا کہ ان کی مذاکرات کے حوالے سے چار ڈیمانڈ ہیں،جو مذاکراتی ٹیم کو مینڈیٹ دیا گیا ہے اس کو حکومت پبلک کرے،دوسرا مذاکرات کا ٹائم فریم دیا جائے،تیسرا یہ کہ پارلیمنٹ کا ان کیمرہ سیشن بلایا جائے اور پارلیمان کو اس پر اعتماد میں لیا جائے اور چوتھی ڈیمانڈ یہ کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جس کو تمام تر پیش رفت کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ دی جائے تو مذاکراتی عمل کدھر جارہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :