عمران خان کو طالبان کی کمیٹی کے لئے نامزد کیا جانا اچھی بات ہے، خورشید شاہ،طالبان نے عمران خان کا نام تجویز کرنے سے پہلے مشاورت نہیں کی،شاہ محمود قریشی،حکومت نے مذاکرات پر مشاورت تک نہیں کی،مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بن سکتے،مولانا فضل الرحمن،قومی اسمبلی میں اظہار خیال

منگل 4 فروری 2014 07:49

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4فروری۔2013ء)قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو طالبان کی کمیٹی کے لئے نامزد کیا جانا اچھی بات ہے،اگر چےئرمین پی ٹی آئی مذاکرات میں شامل ہوں گے تو وہ جاندار ہوں گے،کامیابی کے لئے دعاگو ہیں،شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ طالبان نے عمران خان کا نام تجویز کرنے سے پہلے مشاورت نہیں کی،نمائندگی سے معذرت کرتے ہیں،مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں،خیبرپختونخوا حکومت اس سلسلے میں بھرپورتعاون کرے گی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت نے مذاکرات پر مشاورت تک نہیں کی،مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بن سکتے،جنوری کی آل پارٹیز کانفرنس میں تمام جماعتوں نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کئے کہ جرگہ امن مذاکرات کا کردار ادا کرے گا آج کیوں اس کو نظر انداز کیا جارہا ہے،تحفظ پاکستان آرڈیننس آئین پاکستان سے ماوریٰ ہے،جمعیت علماء اسلام(ف) اس کو مسترد کرتی ہے،اگر تحفظ پاکستان بل پاس کیا گیا تو پھر مشرف کے اقدامات کو خود (ن) لیگ جواز فراہم کردے گی،مذہبی طبقہ کو کم از کم اقلیتی برادری جتنا ہی درجہ دے دیا جائے جبکہ مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر نے کہا ہے کہ طالبان پاکستانی ہیں جو بھی نمائندگی کرے گا اس کو فخر ہونا چاہئے،عمران خان کو اپنے راستے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

(جاری ہے)

پیر کو نکتہ اعتراض پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے مذاکرات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے،اب دعا ہے کہ یہ کامیاب ہوں لیکن اس کا ٹائم فریم بھی ضروری ہے،طالبان کی طرف سے عمران خان کا نام پیش کیا جانا اچھی بات ہے،ان کی کمیٹی میں موجودگی سے مذاکرات میں جان آئے گی،انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ کمیٹی بھی تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام(ف) کی نمائندگی ہے،اس لئے پیپلزپارٹی،عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کو نمائندگی کی فکر نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین کے تحت پہلے ہی قرآنی قانون اور شریعت نافذ ہے،میری دعا ہے کہ یہ مذاکرات جلد کامیاب ہوں اور اس موقع پر مذاکراتی ٹیموں کو مبارکباد دیتا ہوں،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی گزشتہ واردات سے طالبان نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اب ان ہاتھوں کو ڈھونڈنا ہوگا کہ یہ دہشتگردی کون کر رہا ہے،نکتہ اعتراض پر پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان نے عمران خان کے نام دینے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف سے مشورہ نہیں کیا تھا،ہم مذاکرات کی کامیابی ضرور چاہتے ہیں،خیبرپختونخوا حکومت اس سلسلے میں تمام سہولیات فراہم کرے گی لیکن عمران خان طالبان مذاکرات میں نمائندگی نہیں کرسکتے کیوں کہ طالبان کی اپنی پالیسی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی اپنی سیاسی پالیسی ہے،انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ سیز فائر کیا جائے تاکہ ماحول بن سکے،مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اگر طالبان نے نمائندگی کیلئے عمران خان کا نام تجویز کیا ہے تو کوئی بری بات نہیں ہے اگر طالبان مولانا فضل الرحمن کا نام تجویز کرتے تو بھی قابل قدر بات ہوتی کیونکہ طالبان غیر نہیں پاکستانی ہیں اور پاکستانیوں کی نمائندگی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے،انہوں نے کہا کہ کل خود عمران خان طالبان سے مذاکرات کا راستہ دکھا رہے تھے آج ان کو اس حوالے سے منہ نہیں موڑنا چاہئے،میں اس ملک میں امن قائم کرنا ہے تو سب کو کردار ادا کرنا چاہئے،جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات اور کمیٹی کی تشکیل پر پورے ایوان نے اصولی طور پر وزیراعظم کے اس اعلان کی تائید کی تھی مگر اس کے بعد کی صورتحال میں نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہے،انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے،انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس،اعلامیہ اور مشترکہ قراردادیں پاس ہوئیں اور پھر اب مذاکرات بھی اس کا تسلسل ہیں،انہوں نے کہا کہ جنوری2013ء میں کنونشن سینٹر میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی اور ایک قبائلی جرگہ تشکیل دیا گیا اور اس میں اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ اگر کوئی بھی جماعت حکومت میں ہوگی یا اپوزیشن میں اس کی پاسداری کرے گی مگر افسوس اس اعلامیہ پر دستخط کے باوجود اس کو نظرانداز کردیاگیا،اگر کوئی تحفظات تھے تو ہم سے مشاورت کی جاتی،انہوں نے کہا کہ صلح ایک خیر کا کام ضرور ہے مگر اتنا بڑا مسئلہ صرف اس طرح حل نہیں کیا جاسکتا جس طرح کا میکنزم تشکیل دیا گیا ہے ہم اس معاملے پر دعاگو ضرور ہیں مگر اب اس عمل کا حصہ نہیں ہیں،انہوں نے کہا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس دستور پاکستان کے منافی ہے اور ایک جمہوری حکومت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسا قانون پاس کیا جائے جس میں سول اداروں کا کردار نہیں رہے گا اور عدالت کا کردار نہیں رہے گا،یہ ایک ایمرجنسی ہے اور صرف شک کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار کرلیا جائے گا اور پھر قانون کے تحت لوگوں کی چار دیواری کا تقدس پامال ہوگا،اس قانون کو مجموعی طور پر مسترد کرتے ہیں،ہم حکومت کے اتحادی ہیں مگر ہم سے مشاورت تک نہیں کی گئی یہ ماورائے آئین ہے اور بنیادی انسانی حقوق کے متافی ہے اور اگر یہ قانون پاس کیا گیا تو گزشتہ دس سال کی محنت پر پانی پھر جائے گا اور پھر مشرف کے اقدامات کو جواز فراہم کردیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ مذہبی طبقے کو زیادہ نہیں تو کم از کم اقلیتی برادری کا جتنا حق دے دیا جائے یہاں مدارس اور علماء کو نشانہ بنایا جارہا ہے ہمیں چاہئے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے قانون سازی کریں۔