جمعیت علمائے اسلام(ف) ، تحریک انصاف کا طالبان کی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار،جمعیت علمائے اسلام(ف) حکومت طالبان مذاکرات سے احتجاجاً علیحد ہ ،حکومت نے طالبان سے مذاکرات کیلئے اصولی راستہ اختیار نہیں کیا ، مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاگو ضرور ہیں، مولانا فضل الرحمن،تحریک انصاف نے مذاکرات کے لئے طالبان کی مصالحتی کمیٹی میں عمران خان کے نام کی شمولیت کو مسترد کردیا، پانچ رکنی مصالحتی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم تحریک انصاف کی صوبائی حکومت مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے میں ہر ممکن تعاون پیش کریگی،اعلامیہ،مولانا سمیع الحق کا حکومتی کمیٹی کے کوآرڈنیٹر عرفان صدیقی کے درمیان پہلا رابطہ ، مولانا سمیع الحق اور عرفان صدیقی کا آج مشترکہ اجلاس پر اتفاق

منگل 4 فروری 2014 07:46

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4فروری۔2013ء)جمعیت علمائے اسلام(ف) کے حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات سے احتجاجاً علیحدگی اختیار کرلی،مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات بڑا معاملہ ہے اس پر بڑا کردار چاہئے،کمیٹیوں میں صلاحیت نہیں کہ وہ مسئلہ حل کرسکیں،جرگہ پر سب کا اتفاق تھا مگر وزیراعظم نے کمیٹی بناتے وقت مشاورت تک نہیں کی،حکومت نے مذاکرات کیلئے اصولی راستہ اختیار نہیں کیا ، مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاگو ضرور ہیں،مفتی کفایت اللہ پارٹی قواعد کے پابند ہیں،پارٹی پالیسی کے علاوہ کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علمائے اسلام(ف) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ گزشتہ سال جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حکومت طالبان مذاکرات کیلئے بڑا جرگہ تشکیل دیا اور اس وقت تمام سیاسی اور مذہبی قیادت کو مدعو کیا جس پر تمام جماعتوں اور حکومت نے اعتماد کا اظہار کیا مگر اب طالبان سے مذاکرات کو شروع کرنے کیلئے جو کمیٹی حکومت نے تشکیل دی اس پر ہم سے مشاورت تک نہیں کی گئی ،جس پر بہت حیرانی ہوئی ہے،البتہ ہم حکومت طالبان مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاگو ضرور ہیں مگر اب اس مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے،کیونکہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کیلئے اصولی راستہ اختیار نہیں کیا ہے،انہوں نے کہا کہ مفتی کفایت اللہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے رہنما ہیں اور پارٹی قواعد کے پابند ہیں اور جماعت کا فیصلہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے البتہ حکومت کو ہم سے کوئی تعاون درکار ہوا تو ہم تعاون ضرور کریں گے،انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بہت بڑا تھا اور ملک میں امن وامان کے قیام کا تھا مگر اس پر بڑا کردار ادا نہیں کرنے دیا جارہا اور معاملے کو کمیٹیوں کے سپرد کردیاگیا ہے،انہوں نے کہا کہ موجودہ کمیٹیوں میں صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اس عمل کو آگے بڑھا سکیں،انہوں نے کہا کہ اب تک اس ملک میں پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا،انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مذاکرات کے معاملے پر ہمیں کسی سے اختلاف نہیں اور نہ ہی میں کسی کا مخالف ہوں اور نہ ہی کوئی میرا مخالف ہے،انہوں نے کہا کہ اگر حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے مشاورت کرتی تو جرگہ کے علاوہ کوئی اور متبادل راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا مگر حکومت نے مشاورت تک نہیں کی ،انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فی الوقت حکومت اور طالبان دونوں مذاکرات پر مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں مگر طالبان کی اپنی شناخت ہے انکو مذاکرات کیلئے اپنی ہی کمیٹی تشکیل دینی چاہئے تھی اور اپنے نمائندوں کو شامل کرنا چاہئے تھا،قبل ازیں جمعیت علمائے اسلام(ف) کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا اجلاس میں وفاقی وزیر اکرم خان درانی،سیکرٹری جنرل جے یو آئی(ف) اور وزیر ملکت مولانا عبدالغفور حیدری،سینیٹر حمد اللہ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی،اس موقع پر حکومت کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی پر غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ طالبان حکومت مذاکرات کے مسئلے پر جمعیت علمائے اسلام(ف) سے مشاورت نہیں کی گئی حالانکہ جمعیت نے حکومت طالبان مذاکرات کیلئے اہم کردار ادا کیا اور جرگہ تشکیل دیا گیا،مگر ایک منٹ بھی اس جانب نہیں سوچا گیا اور کمیٹی کو بغیر مشاورت تشکیل دیا جس پر جمعیت علمائے اسلام(ف) کو تحفظات ہیں اس لئے وہ اب اس مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔

(جاری ہے)

ادھرسیاسی ساکھ بچانے کی کوشش یا بیرونی دباوٴ؟طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سب سے بڑی حامی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی طالبان کی مصالحتی کمیٹی میں پارٹی قائد عمران خان کے نام کی شمولیت کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ پانچ رکنی مصالحتی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے، تاہم خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے میں ہر ممکن تعاون پیش کریگی جبکہ مذاکرات کی کامیابی کے پانچ راہنما اصول پیش کیے ہیں ، ان اصولوں میں آئینی حدود میں رہ کر طالبان سے مذاکرات ،دونوں اطراف سے جنگ بندی پر سختی سے عمل درآمد کرکے دہشت گردانہ کاروائیاں فوری بند کرنا اور وفاقی حکومت کے ذریعے ڈرون حملے بند کرنے کیلئے امریکہ کو قائل کرنے سمیت دیگر اصول شامل ہیں۔

پیر کے روز تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا ہنگامی اجلاس عمران کی رہائش گاہ واقع بنی گالہ پر منعقد ہوا جس میں طالبان کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی میں عمران خان کے نام کی شمولیت کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جانا تھا۔اس حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اہم ترین اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان طالبان کی جانب سے مجوزہ پانچ رکنی مصالحتی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے، تاہم خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے میں ہر ممکن تعاون پیش کریگی ۔

اس کے ساتھ تحریک انصاف کی قیادت نے حکومت کی جانب سے تشکیل پانے والی چار رکنی کمیٹی جس میں اس کی نمائندگی رستم شاہ مہمند کی صورت میں موجود ہے، پر مکمل اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ مذاکراتی عمل کو معنی خیز بنانے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے 5بنیادی رہنما اصولوں پر بھی مکمل اتفاق کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ آئینی حدود کے اندر رہ کر مذاکرات کیے جائیں ، بات چیت کے عمل کے دروران ماحول کو سازگار بنانے کیلئے دونوں اطراف سے جنگ بندی پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور دہشت گرد کارروائیاں خاص طور پر روکی جائیں،مذاکرات کا پورا عمل واضح اور شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے تاکہ قوم اس میں ہونے والی پیش رفت اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور انہیں صدمہ پہنچانے کی کوشش کرنے والے عناصر سے آگاہی حاصل کر سکے۔

ہمیں دشمنوں کی جانب سے امن عمل تباہ کرنے کی کوششوں کے تدارک کیلئے بھی قبل از وقت تیار رہنا چاہیے، وزیراعظم گفتگو کا عمل محفوظ بنانے کیلئے فوری طور پر امریکی حکومت سے ڈرون حملے رکوانے کا مطالبہ کریں تاکہ ڈرون حملے کے ذریعے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے جیسی روایت نہ دہرائی جا سکے، نتائج کے حصول کیلئے گفتگو کے آغاز میں ہی مدت کار طے کی جائے کیونکہ ایسے میں جب طاقتور مفاد پرست اور ملک دشمن عناصر امن عمل تباہ کرنے پر آمادہ ہوں، وقت کی اہمیت انتہائی بڑھ جاتی ہے۔

اعلامیے کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ دہائیوں پر محیط تباہی اور خونریزی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ملک میں پائیدار امن کے قیام کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ معصوم شہریوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افواج پاکستان کے جوانوں کا قتل عام روکا جا سکے،تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے آج کے اجلاس میں ملک میں موجود تمام جماعتوں سے دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کی خاطر مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کی مکمل حمایت کی اپیل کی ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ فوری طور پر بات چیت کا آغاز کیا جائے تاکہ ملک و قوم کو مزید نقصان اور قیمتی جانوں کے ضیاع سے محفوظ بنایا جا سکے ۔

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ آئندہ دو روز میں کمیٹی کا اجلاس دوبارہ ہوگا اور اس حوالے سے امید ہے کہ عمران بھی بہتر فیصلہ کریں گے‘ طالبان نے باضابطہ مطالبات کی فہرست نہیں دی‘ شریعت تو تمام جماعتوں کا مطالبہ اور آئین کا حصہ ہے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کا اجلاس جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی زیر صدارت ہوا جس میں جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز بھی شامل ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے راہنماء مفتی کفایت اللہ لاہور میں ہونے کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کرسکے۔

کمیٹی کے اجلاس کے بعد مولانا سمیع الحق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کے راہنماء مفتی کفایت اللہ سے رابطہ ہوا ہے اور انہوں نے مذاکرات میں شرکت اور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وہ عمران خان سے پرامید ہیں اور ان سے مایوس نہیں ہیں۔ عمران خان اس حوالے سے بہتر فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا الیکشن سے پہلے اور بعد میں بھی طالبان سے بات چیت کا مطالبہ تھا اور وہ کہتے رہے ہیں کہ فوجی طاقت سے گریز کیا جائے اور عمران خان نے اس تناظر میں دھرنے بھی دئیے اور نیٹو سپلائی بھی روکی لیکن اب اللہ نے انہیں ملک میں لگی آگ کو بجھانے کا ذریعہ بنایا ہے تو وہ نیک نیتی سے تعاون کریں۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اس وقت پوری قوم اور ملک دہشت گردی کے عذاب میں مبتلاء ہے اور مستقبل بھی خطرناک نظر آرہا ہے تو ایسی صورت میں اس آگ کو بجھانے کیلئے عوام کا بھی فرض بنتا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ان کی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں یہ طے پایا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے جو سرکاری کمیٹی بنی ہے اس سے رابطہ کیا جائے اور ممکن ہے کہ دونوں کمیٹیاں مل کر اجلاس بھی کریں تاکہ اس تناظر میں آگے قدم اٹھایا اور مذاکرات کیلئے طالبان سے ملاقات کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ دو روز میں پھر کمیٹی بیٹھے گی اور مزید پیشرفت کی جائے گی۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے ٹائم فریم مشکل نظر آتا ہے کیونکہ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے لیکن کوشش کریں گے کہ ایک ہفتے میں مذاکرات ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کا مطالبہ تو سب کا ہے اور یہ آئین کا حصہ بھی ہے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ابھی تک طالبان نے باضابطہ مطالبات کی فہرست نہیں دی لیکن لازماً اپنے مطالبات پیش کرین گے۔

مولانا سید یوسف شاہ کوآرڈینیٹر ہوں گے جوکہ طالبان کی پیشرفت سے میڈیا کو آگاہ کریں گے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وہ مذاکرات میں اللہ کی رضا کیلئے حصہ لے رہے ہیں۔ انہیں اس حوالے سے کوئی مراعات یا پروٹوکول نہیں چاہئے۔جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور طالبان کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق کا حکومتی کمیٹی کے کوآرڈنیٹر عرفان صدیقی کے درمیان پہلا رابطہ ، مولانا سمیع الحق اور عرفان صدیقی کا آج(منگل کو) مشترکہ اجلاس پر اتفاق ہوگیا جبکہ حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ طالبان کی تشکیل کردہ کمیٹی جب اورجہاں کہے ہم ملنے کیلئے تیار ہیں اور اس کمیٹی کی طرف سے ملنے والے گرین سگنل کاخیرمقدم کرتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پیر کو مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں ان کی کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا اجلاس کے اختتام کے بعد مولانا سمی الحق وزیراعظم کے معاون خصوصی و حکومتی کمیٹی کے کوآرڈنیٹر عرفان صدیقی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کیا جس کے بعد حکومتی کمیٹی کے ایک اور رکن میجر ریٹائرڈ عامر سے رابطہ کیا ۔ مولانا سمیع الحق نے حکومت کمیٹی کے دونوں ارکان کو بتایا کہ مذاکراتی عمل کو ہر صورت میں آگے بڑھائیں گے اور ہمیں عمران خان کی جانب سے فیصلے کا انتظار ہے اگر وہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری قیادت کریں لیکن خدانخواستہ وہ اگر شامل نہیں ہوئے تب بھی مذاکرات کا عمل آگے بڑھے گا ۔

مولانا سمیع الحق اور عرفان صدیقی کے رابطے کے بعد میجر ریٹائرڈ محمد عامر نے مولانا سمیع الحق سے بھی بات کی ہے کہ دونوں کمیٹیوں کا اجلاس کہاں اور کس وقت ہونا چاہیے ۔ دونوں کمیٹیوں کے ارکان کے رابطے کے بعد مولانا سمیع الحق اور عرفان صدیقی کے مابین اس فیصلے پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں کمیٹیوں کا اجلاس آج منگل کو دوپہر دو بجے اسلام آباد میں مولانا سمیع الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ آج مل بیٹھ کر بات چیت کرینگے حکومت اور نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں منصفانہ کوششیں دونوں جانب سے ہونی چاہیے آپریشن ہوا تو تباہی ہوگی جس میں مسٹر اور مولوی دونوں جل سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بھارت جارحیت کررہا ہے لیکن ہم دوستی کی باتیں کررہے ہیں معاملہ خون خرابے تک پہنچا تو بدقسمتی ہوگی دوسری جانب دفاع پاکستان کونسل نے بھی مذاکرات کی حمایت کردی ہے ادھر حکومتی کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر عرفان صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کمیٹی مذاکرات کیلئے تیار ہے طالبان کمیٹی جہاں چاہے ہم مذاکرات کیلئے حاضر ہو ں گے ہم نیک نیتی سے آگے بڑھ رہے ہیں ہماری طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی اس کمیٹی کی طرف سے گرین سگنل کے منتظر تھے اورہم نے اپنے دو ارکان کو جو پشاور میں ہوتے ہیں اسلام آباد پہنچنے کا کہہ دیا ہے ۔حکومت سے مذاکرات اور رابطہ کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ہم حکومتی کمیٹی سے زیادہ بااختیار ہیں،طالبان سے ہر وقت رابطے میں ہیں ،جلد طالبان سے باالمشافہ ملاقات کر کے ان کی شرائط معلوم کریں گے ،وزیر اعظم نوازشریف کو آپریشن کی بجائے مذاکرات کا آپشن استعمال کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

کچھ قوتیں مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتیں اس لئے دہشت گردی کی وارداتیں کروا رہی ہیں۔حکومت اور طالبان کو تیسری قوت سے خبر دار رہنا ہوگا۔آج منگل کو حکومتی کمیٹی کے ساتھ پہلا مشاورتی اجلاس ہوگا ۔وہ پیر کو یہاں حکومت اور طالبان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والی کمیٹی اور دفاع پاکستان کونسل کے الگ الگ اجلاسوں کے بعدایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

اس اجلاس میں کمیٹی کے تین ارکان شریک ہوئے جبکہ ایک رکن مولانا مفتی کفایت اللہ سے رابطہ ٹیلی فون پر رہا اور عمران خان شریک نہیں ہوئے۔ مولانا سمیع الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ جے یو آئی (س) کے مرکزی رہنما مولانا یوسف شاہ ثالثی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہوں گے۔ تحریک انصاف مذاکرات سے پیچھے ہٹی تو یہ عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مفتی کفایت اللہ اس کمیٹی کا حصہ ہیں انہوں نے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے وہ لاہور میں تھے جہاں سے آرہے ہیں اس لئے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان سے مایوس نہیں ہو ں امید ہے وہ مذاکرات میں تعاون کریں گے۔وزیراعلی پرویز خٹک سے بات چیت ہوتی رہتی ہے اور وہ مسلسل رابطے میں ہیں ۔عمران خان کو تقدیر نے موقع دیا ہے اب وہ اس معاملے میں اپنے بڑے لیڈر ہونے کا ثبوت ہیں اور ملک گیر آگ بجھانے میں کردار ادا کریں گے۔

حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی سے رابطہ ہوا ہے اور آج منگل کو دوپہر حکومتی کمیٹی سے اس معاملے پر مشاورت کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کریں گے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے بھی کمیٹی کا خیر مقدم کیا ہے اور ہم اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کو آپریشن کی بجائے مذاکرات کا آپشن استعمال کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں کیونکہ کچھ امن دشمن قوتیں مذاکرات کی بجائے آپریشن کرانا چاہتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے ،معاملات مذاکرات سے ہی حل کئے جاتے ہیں ۔اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گزارش کی ہے کہ وہ اس معاملے میں بھر پور مثبت کردار ادا کریں ۔انہوں نے کہا کہ وہ طالبان سے مسلسل رابطے میں ہیں اور جلد کمیٹی کے ارکان بالمشافہ ملاقات بھی کریں گے اور ان کی شرائط معلوم کریں گے ۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ کچھ قوتیں مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتیں اس لئے دہشت گردی کی وارداتیں کروا رہی ہیں۔حکومت اور طالبان کو تیسری قوت سے خبر دار رہنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جے یو آئی (س) کے مرکزی رہنما مولانا یوسف شاہ ثالثی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہوں گے۔