مولاناسمیع الحق نے مذاکراتی ٹیم کے اعلان کو اپنی کامیابی قرار دیدیا،عوام سے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی اپیل ، طالبان سے مذاکرات کیلئے پہلی سیڑھی کا کردار ادا کیا، مفاہمت کیلئے تحریک طالبان کے پاس جانا پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل تھا ،مولانا سمیع الحق، اب وزیراعظم، فوج اور تحریک طالبان کے صبر و تحمل کا امتحان ہے، حکومت فی الفور اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرے،مطالبہ

جمعہ 31 جنوری 2014 08:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31جنوری۔2014ء)جمعیت علماء اسلام (س)کے سربراہ مولاناسمیع الحق نے حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے اعلان کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے عوام سے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی اپیل کی ہے اور کہاہے کہ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کیلئے پہلی سیڑھی کا کردار ادا کیا، مفاہمت کیلئے تحریک طالبان کے پاس جانا پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل تھا ، اب وزیراعظم، فوج اور تحریک طالبان کے صبر و تحمل کا امتحان ہے، حکومت فی الفور اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرے۔

جمعرات کو جاری ہونیوالے ایک بیان میں حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کا اعلان کئے جانے کے بعد اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (س) اور دفاع پاکستان کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھنے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے تعمیری اور مثبت اقدام قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

مولاناسمیع الحق نے اسے اپنی ناچیز مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بار کسی سے خفیہ مشاورت کی بجائے ملک کے سپریم ادارہ پارلیمنٹ میں اس کا اعلان اس اقدام کی سنجیدگی کی ضمانت بن سکتا ہے۔مولانا سمیع الحق نے کہاکہ وزیراعظم کے کہنے پر خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور ملک کے امن و امان اور دونوں طرف کے انسانوں کے ضیاع کو روکنے کی خاطر میں نے خود کو انتہائی خطرات میں ڈال کر طالبان کے اہم رہنماؤں اور حقیقی قیادت سے رابطے شروع کئے جوکہ پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل کام تھا۔

اللہ کے فضل سے دو جنوری کی شام کو مجھے نہایت مثبت ردعمل سے آگاہ کیا گیا ۔اور اس ضمن میں اتفاق رائے کے لئے تمام قریبی گروپوں سے مشاورت شروع کرنے کی خوشخبری بھی سنائی ۔تحریک طالبان نے یہ فیصلہ ایسے حالات میں کیا کہ انہی دنوں میر علی اور شمالی وزیرستان کو ہوائی شیلنگ کے ذریعے لہو ولہان کردیا گیا تھا۔ 60,70معصوم شہریوں کی جانیں بکھری پڑی تھیں‘ ایسے حالات میں میری دخواست پر مثبت غور اور مثبت پیغام یہ ان کے حوصلے تدبر اور حقائق شناسی کا بین ثبوت تھا۔

اس کے بعد وزیراعظم کی جانب سے کسی پیش رفت کی بجائے فوری آپریشن کے لئے فضا بنائی گئی اور ہزاروں افراد نے وہاں سے نقل مکانی شروع کردی۔ مذاکرات کی بساط لپیٹنے کے باوجود طالبان نے اشتعال انگیزی کی بجائے باربار شد ومد سے مذاکرات کی پیشکش کی اور سارے گروپوں کے اتفاق رائے کا بھی ذکر کیا گیا۔ جس کے بعد وزیراعظم کو مذاکرات کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہ رہا۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجھ ناچیز مخلصانہ کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی اور اب وزیراعظم ،افواج پاکستان اور خود تحریک طالبان کے قائدین کے سوجھ بوجھ اور صبر وتحمل کا امتحان ہے کہ وہ سب مل کر اس موقع کو ضائع کئے بغیر ملک میں پائیدار امن کو یقینی بنائیں۔ اس مسئلہ میں پورے ملک کی تباہی و بربادی کے جو اصل محرکات ہیں پارلیمنٹ کی متفقہ قراراداوں میں کئے گئے مطالبے کہ خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے۔ مسلمانوں کے خلاف غیروں کی جنگ میں غیر ملکی طاقتوں کے لئے استعمال ہونے سے اوران کے ساتھ کھڑا رہنے سے ہر حال میں جان چھڑائی جائے۔ میری پوری قوم سے اخلاص سے اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔