سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے دائر نظرثانی کی درخواست خارج ، درخواست زائدالمیعاد اور میرٹ کیخلاف ہے، دیئے گئے دلائل بھی اس سے مطابقت نہیں رکھتے 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں مداخلت کی ضرورت نہیں، عدالت عظی نظرثانی کی درخواست اسلئے تو نہیں ہے کہ اب مشرف معافی مانگنا چاہتے ہیں‘ ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ معافی مانگیں، جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

جمعہ 31 جنوری 2014 08:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31جنوری۔2014ء) 31 جولائی کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے دائر نظرثانی کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست زائدالمیعاد اور میرٹ کیخلاف ہے‘ اور جو دلائل دئیے گئے ہیں وہ بھی اس سے مطابقت نہیں رکھتے‘ عدالت 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا یہ نظرثانی کی درخواست اسلئے تو نہیں ہے کہ اب مشرف معافی مانگنا چاہتے ہیں‘ ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ معافی مانگیں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ مشرف دور میں صرف 1013 افراد ہلاک ہوئے تھے مگر اب ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چھ ہزار سے بھی زائد ہوچکی ہے۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ صدر اور چیف جسٹس کے درمیان تعلقات اہمیت کے حامل تھے۔

(جاری ہے)

جس دن چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس طلب کیا تھا تعصب اسی دن سے شروع ہوا۔ 3 نومبر کا اقدام غیر آئینی مگر قابل توثیق تھا۔ میں آئین شکنی کا لائسنس لینے نہیں آیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 3 نومبر کا اقدام آئین سے انحراف تھا؟ اور اگر افتخار چوہدری متعصب ہوگئے تھے تو اس حوالے سے اپنی درخواست میں کوئی پیرا گراف دکھایا جائے۔

جسٹس خلجی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں غداری کی سزا کے حوالے سے 7اے موجود ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ بھارت کے جس عرصے کے آرمی چیف کے اقدام کی بات کررہے ہیں اسے بھارت میں سب سے زیادہ ”ڈارک ڈیز“ قرار دیا گیا ہے اور یہ بلیک پیریڈ تھا۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ میں نے کب کہا کہ وہ اچھا اقدام تھا میں تو مثال دے رہا ہوں کہ یہ اقدام جس کی آج ہم سماعت کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں ہوا تھا بلکہ دیگر کئی ممالک میں بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔

آئین پر سب خون تقریباً ہر ملک میں مارا گیا مگر زیاد تر ممالک نے اس کی اپنے آئین میں توثیق کردی۔ قائداعظم نے سپریم کورٹ اور ججز کے حوالے سے کافی کچھ کہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ قائداعظم نے ایمرجنسی اور مارشل لاء کے حوالے سے شاید کچھ کہا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے تصورات میں ایسا کردیا۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد تو قائد اعظم انتقال کرگئے تھے۔

شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کیسی ہونی چاہئے اس حوالے سے قائداعظم کے فرامین دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قائداعظم کا نام لیا ہے تو ہم سب آپ کو توجہ سے سننے کیلئے بیتاب ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے قائداعظم کے فرامین پڑھ کر سنائے۔ قائداعظم کی ایک تقریر کی کاپی آپ کو دی ہے۔ قائداعظم سپریم کورٹ کو صرف سول اور فوجداری اپیل کیلئے قائم کرنے کے حق میں تھے اور فیڈرل کورٹ کو آئینی عدالت قرار دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قائداعظم علیحدہ سے آئینی عدالت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ اس نطرثانی کی درخواست کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ یہ متعلقہ دلائل کیسے ہوسکتے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ 1959ء میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی گئی‘ دیگر عدالتیں بھی قائم ہوئیں۔ یہ عدالت صوبوں کے درمیان تنازعات کو حل کرتی تھی اور شہریوں کی ان درخواست کی بھی سماعت کرتی تھی جن کا تعلق آئین سے انحراف ہوتا تھا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ قائداعظم نے پریوی کونسل کے حوالے سے کہا تھا کہ اس نے ہندو قانون کو قتل اور محمدی قانون کو ذبح کردیا تھا۔ آپ اپنے مقصد کیلئے قائداعظم کے کندھے پر بندوق رکھ کر کیوں چلانا چاہتے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ میں ایسا نہیں کررہا آپ غلط کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اے جی نورانی کا مضمون اور قائداعظم کی تقریر ہم نے پڑھ لی ہے۔

آپ خود کہتے ہیں کہ آپ صرف اس کا حوالہ دینا چاہتے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں۔ اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ اس سے درخواست کا کوئی تعلق نہیں ہے تاہم اگر یہ پڑھنے پر بضد ہیں تو پڑھ لیں۔ جسٹس آصف نے کہا کہ دو منٹ رہ گئے آپ پڑھ لیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کا تحریری معاہدہ پیش کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے قائداعظم کے فرامین کو زندگی میں تھام رکھا ہے۔ ابراہیم ستی نے شریف الدین پیرزادہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مختصر بات کرنے کی اجازت مانگی جس کی اجازت دی گئی۔ ابراہیم ستی نے ایک اور عدالتی فیصلے کا حوالہ پیش کیا۔ مشرف کیخلاف ایک شکایت درج کرائی گئی ہے کہ چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کو مشرف نے زیر حراست رکھا۔

خلیل رمدے نے فیصلہ دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کبھی بھی اس کو چیلنج نہیں کیا آپ نے خود اس فیصلے کو سراہا تھا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دو بندے آپس میں لڑ رہے ہوں۔ ایک جج اور دوسرا ملزم بن جائے۔ تاریخ خود کو دہراتی ضرور ہے مگر کوئی اس کی پھر بھی پرواہ نہیں کرتا۔ مجھے عدالت سے انصاف چاہئے۔ آپ آئین کے محافظ ہیں۔ وہ پنجرے میں ہیں۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ وہ پنجرے میں نہیں ہسپتال میں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب جو کچھ کہا ہے وہ پہلے نہیں کہا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمارا ریویو قبول کریں اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر عدالتی معاملات کو خصوصی عدالت سے دور رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رشید اے رضوی موجود ہیں ان کو سن بھی سکتے ہیں‘ وقفے کے بعد آپ بتادیں کہ کچھ اور کہنا ہے تو کہہ دیں۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ فیصلہ ایک ہی ہوسکتا ہے یا تو نظرثانی کی درخواست قبول یا خارج ہوگی۔ دوسری کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں ہم مزید دلائل سنیں گی یا نہیں۔ اس کا فیصلہ ساڑھے گیارہ بجے دیں گے۔