القاعدہ کا خاتمہ کردیا مگر چھوٹے چھوٹے گروپ مختلف ملکوں میں جڑیں پکڑ رہے ہیں جو خطرہ بن سکتے ہیں،مقابلہ کیلئے حلیف ملکوں کو مستحکم بناتے رہیں گے،بارک ،دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرون حملوں میں کمی کی ہے ورنہ متاثرہ ملکوں سے ہمیں بھی خطرہ ہو سکتا ہے،12سال سے جاری افغان جنگ ختم کر رہے ہیں اورگوانتانامو جیل بھی بند کر دینگے،ایران کو دس سال میں پہلی مرتبہ جوہری ہتھیارکی طرف سے پیشرفت سے روک دیا ،ایران کے خلاف مزید پابندیوں کا کوئی اور بل میرے پاس بھیجا گیا تو اسے ویٹو کر دوں گا،صرف انٹیلی جنس اور فوجی کارروائی کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں آئینی نظریات پر بھی کاربند ہونا اور دنیا کے سامنے مثال بننا ہوگا،امریکی صدر باراک اوباما کا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب

جمعرات 30 جنوری 2014 08:18

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30جنوری۔2014ء)امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ القاعدہ کا خاتمہ کردیا ہے مگر چھوٹے چھوٹے گروپ مختلف ملکوں میں جڑیں پکڑ رہے ہیں جو خطرہ بن سکتے ہیں،ان کے مقابلہ کیلئے حلیف ملکوں کو مستحکم بناتے رہیں گے،دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرون حملوں میں کمی کی ہے ورنہ متاثرہ ملکوں سے ہمیں بھی خطرہ ہو سکتا تھا،12سال سے جاری افغان جنگ ختم کر رہے ہیں اورافغان سیکورٹی فورسز نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں،ایران کو دس سال میں پہلی مرتبہ جوہری ہتھیارکی طرف سے پیشرفت سے روک دیا ہے اور مستقل سمجھوتہ پر بات چیت جاری ہے،ایران کے خلاف مزید پابندیوں کا کوئی اور بل میرے پاس بھیجا گیا تو اسے ویٹو کر دوں گا،قیدیوں کی منتقلی پر پابندیاں ختم کرے اور ہم گوانتاموبے جیل کو بند کریں کیونکہ ہم صرف انٹیلی جنس اور فوجی کارروائی کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں آئینی نظریات پر بھی کاربند ہونا اور دنیا کے سامنے مثال بننا ہوگا۔

(جاری ہے)

منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اوبامہ نے کہا کہ اس سال کے آخر تک ہم افغانستان میں اپنا مشن پورا کرلیں گے،اوباما نے کہا کہ ہمارے فوجیوں اور شہریوں کی غیر معمولی قربانیوں کے نتیجے میں آج امریکہ زیادہ محفوظ ہوچکا ہے‘ میں جب اقتدار میں آیا تھا تو ایک لاکھ 80 ہزار امریکی فوجی عراق اور افغانستان میں موجود تھے آج عراق سے سارے فوجی واپس آچکے ہیں‘ افغانستان سے بھی 60 ہزار سے زائد فوجی واپس آئے ہیں اور افغان فوج خود سکیورٹی سنبھال رہی ہے جبکہ ہمارے فوجی صرف تعاون کررہے ہیں۔

ہمیں اس سال کے آخر تک یہ مشن مکمل کرنا ہوگا اور امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء کے بعد ہم متحدہ افغانستان سے تعاون کریں گے اور وہ اپنے مستقبل کی ذمہ داری خود سنبھال لے گا۔ اگر افغان حکومت سکیورٹی سمجھوتے پر دستخط کرتی ہے جس پر مذاکرات ہورہے ہیں تو امریکیوں کی معمولی قوت افغانستان میں نیٹو اتحادیوں کیساتھ موجود رہے گی تاکہ تربیت اور معاونت کیساتھ ساتھ القاعدہ کی باقیات کیساتھ کارروائیوں میں تعاون کیا جائے۔

افغانستان سے ہمارے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی تاہم ہمارا عزم اپنی جگہ موجودہ ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے ملک کیخلاف حملے نہیں کرنے دیں گے۔ اوباما نے کہا کہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔ اگرچہ ہم نے القاعدہ کی اہم قیادت کو شکست دے دی ہے لیکن خطرات موجود ہیں کیونکہ القاعدہ کے حامی اور دیگر انتہاء پسند دنیا کے مختلف حصوں میں جڑیں پکڑ رہے ہیں۔

یمن‘ صومالیہ‘ عراق اور مالی میں ہم اپنے اتحادیوں کیساتھ مل کر یہ نیٹ ورک ختم کررہے ہیں۔ شام میں ہم اپوزیشن کی حمایت جاری رکھیں گے۔ مستقبل کے مشن میں کامیابی کیلئے ہمیں اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ ختم ہورہی ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ کانگریس قیدیوں کی منتقلی پر پابندیاں ختم کرے اور ہم گوانتاموبے جیل کو بند کریں کیونکہ ہم صرف انٹیلی جنس اور فوجی کارروائی کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں آئینی نظریات پر بھی کاربند ہونا ہوگا اور دنیا کے سامنے مثال بننا ہوگا۔

ایران کے بارے میں اوباما نے کہا کہ دباؤ کیساتھ امریکی سفارتکاری کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام میں پیشرفت روکی گئی ہے جو دس سالوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ایران نے اپنے افزودہ یورینیم کے ذخائر ختم کرنا شروع کردئیے ہیں اور وہ جدید سینٹری فیوج استعمال نہیں کرے گا۔ غیر معمولی معائنے سے دنیا نے تصدیق کی ہے کہ ایران بم نہیں بنا رہا۔

ہم اتحادیوں کیساتھ مل کر مذاکرات کررہے ہیں تاکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے باز رکھا جائے۔ یہ مذاکرات مشکل ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ کامیاب نہ ہوں۔ ہمیں واضح نظر آرہا ہے کہ ایران حزب اللہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرتا ہے جوکہ ہمارے اتحادیوں کیلئے خطرہ ہے۔ کوئی بھی طویل المدت منصوبہ کیا گیا تو وہ قابل تصدیق اقدام پر مبنی ہوگا جس سے بین الاقوامی برادری قائل ہو کہ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا۔

اگر جان ایف کینیڈی اور رونالڈ ریگن سوویت یونین سے مذاکرات کرسکتے ہیں تو ایران آج زیادہ مضبوط ہے اور وہ ان سے کم طاقتور مخالفین سے بات کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پابندیوں سے بھی خاصی مدد ملی ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کانگریس نے نئی پابندیوں کا کوئی بل بھیجا جس سے مذاکرات متاثر ہونے کا خطرہ ہو تو میں اسے ویٹو کردوں گا۔

ہمیں قومی سلامتی کیلئے سفارتکاری کو موقع دینا ہوگا۔ اگر ایرانی قیادت نے یہ موقع ضائع کردیا تو مزید پابندیوں کیلئے سب سے پہلے میں آگے آؤں گا اور ہر وہ طریقہ اختیار کروں گا جس سے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکا جاسکے اور اگر ایران نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو وہ عالمی برادری میں دوبارہ شامل ہوسکتا ہے اور پھر جنگ کے کسی خطرے کے بغیر ایک اور بڑا سکیورٹی چیلنج حل ہوجائے گا۔

ملک اور عوام کی بہتری کے لیے ’مل کر کام کرنے‘ پر زور دیتے ہوئے، صدر براک اوباما نے کہا کہ وہ 2014ء کو عمل کے سال کے طور پر دیکھتے ہیں اور امریکیوں کی اکثریت یہی کچھ چاہتی ہے۔اْنھوں نے کہا ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم مل کر کیا پیش رفت حاصل کر سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں، صدر نے کہا کہ ایوان ِنمائندگان کے ارکان کو چاہیئے کہ وہ امریکی شہریوں کی زندگیوں، اْن کی توقعات اور خواہشات پر دھیان مرکوز رکھیں۔

اْنھوں نے کہا کہ وہ اِس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ نسل، علاقے اور پارٹی کی تفریق سے بالا تر ہو کر، اور اِس بات کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہ کون کم عمر یا عمر رسیدہ ہے، امیر ہے یا غریب، ’سب کو یسکاں مواقع‘ فراہم کرنے میں پختہ عقیدہ ہونا لازم ہے۔صدر نے زور دے کر کہا کہ ہم سب کا اِس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیئے کہ، اگر آپ سخت محنت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔

معیشت کے فروغ کے کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے، صدر نے کہا کہ کساد بازاری کا معاملہ سنگین نتائج برآمد کرتا ہے۔ 30ء کی دہائی کے تاریخی کساد بازاری کا ذکر کرتے ہوئے اْنھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور عالمی مسابقت کے باعث بہت سے اچھے، متوسط درجے کے روزگار کے مواقع چھن گئے تھے، اور کساد بازاری نے معاشی بنیادوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، جس صورت حال کی بہتری پر توجہ مرتکز کی گئی ہے، اور بہتری کی طرف رخ موڑ دیا گیا ہے۔

اْنھوں نے کہا کہ آج چار برس کی معاشی افزائش، اشتراکی اداروں کے منافعے کی شرح اور اسٹاکس کی قیمتیں بڑھی ہیں؛ اور چوٹی کی سطح پر کام انجام دینے والوں کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ لیکن، اجرتوں کی شرح میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ عدم مساوات گہری ہوچکی ہے اور اوپر بڑھنے کے امکانات رک سے گئے ہیں۔ غریب طبقے کے حالات بہتر نہیں ہوئے۔خواتین کے حوالے سے، صدر اوباما نے کہا کہ یکساں کام کے لیے مساوی اجرت کے حق کو تسلیم کیا جائے، کیونکہ، بقول اْن کے، جب ایک خاتون کامیاب ہوتی ہے، تو دراصل امریکی معاشرے کی جیت ہوتی ہے۔

بچوں کی تعلیم سے متعلق، اْن کا کہنا تھا کہ بندوبست کیا گیا ہے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم میسر ہو، اور تعلیم اور تربیت تک اْن کی رسائی یقینی بنائی جائے۔اْنھوں نے اعلان کیا کی نائب صدر جو بائیڈن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائیگی، جو امریکیوں کی بہتر تربیت اور بہتر روزگار کے مواقع کی فراہمی کا سبب بنے گی۔صدر نے کہا کہ بنیادی تحقیق بے انتہا اہمیت کی حامل ہے۔

بقول اْن کے، جو قوم تحقیق میں پیچھے رہے گی، وہ ابتری کا شکار ہو جائے گی، اور امریکہ ایسا نہیں کرسکتا۔اْنھوں نے کہا کہ قدرتی گیس کے ملکی ذخائر اور وسائل کو احتیاط سے کام میں لایا جارہا ہے۔ صاف شفاف توانائی کے ذرائع سے متعلق، اْن کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی پر اب بھی زور دیا جا رہا ہے، اور یہ کہ ہر منٹ میں ایک اضافی امریکی گھر شمسی توانائی کا استعمال شروع کر رہا ہے۔

اوباما نے کہا کہ آج امریکامیں ٹیچراپنے ضرورت مندطالب علم کوزیادہ وقت دیتاہے، امریکامیں گریجو یٹ افرادکی شرح3دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے، گذشتہ5سال کے دوران بیروزگاری کی شرح کم ہوئی۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ امریکاکابجٹ خسارہ نصف ہوچکاہے، امریکاسرمایہ کاروں کیلئے چین سے زیادہ فیورٹ ہوچکاہے، 4سال کی معاشی ترقی کی وجہ سے کمپنیوں کے منافع میں اضافہ ہوا، آج متوسط طبقے کی خوشحالی کیلئے ٹھوس اورقابل عمل تجاویز پیش کروں گا۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ آج امریکاترقی کی راہ پرگامزن ہے، امریکاکی حقیقی طاقت اس کی عوام ہے، سب کیلئے یکساں مواقع مہیاکرناہماری ترجیح ہے۔