حکومت کنفیوژن کا شکار ہے،طالبان سے مذاکرات کیلئے سنجیدہ اقدام اٹھائے،مذہبی وسیاسی رہنماؤں کا مطالبہ،امریکہ کو خدشہ ہے کہ انخلاکے بعد دوبارہ اسامہ بن لادن زندہ ہوجائیگا،منور حسن،وقت آگیاہے کہ مسلمانوں کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا،فضل الرحمان،لگتا ہے کہ نوازشریف کو طالبان سے مذاکرات سے روک دیا گیا ہے،سمیع الحق

بدھ 29 جنوری 2014 08:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29جنوری۔2014ء)دینی و مذہبی قیادت نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے سنجیدہ اقدام اٹھائے،فی الوقت حکومت کنفیوژن کا شکار ہے،قاضی حسین احمد کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین، زندہ رہے تو قوم کو متحد رکھا چلے تو بھی اکٹھا کرگئے، سید منور حسن نے کہاہے کہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ انخلابعد دوبارہ اسامہ بن لادن زندہ ہوجائیگامگر اسامہ بن لادن لوگوں کے دلوں میں مرا نہیں ہے، امریکہ خطے سے جانا نہیں چاہتا، حکومت چاہے تو مذاکرات کوکوئی سبوتاژ نہیں کرسکتا، فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں، شمالی وزیرستان آپریشن کی مخالفت کرکے فوج کی حمایت کررہے ہیں ،مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے حواری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، وقت آگیاہے کہ مسلمانوں کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا، 80ء کی دہائی کے بعد مسلمانوں کو انتہاء پسند کے طور پر پیش کیا جانے لگا، اب فیصلے جذبات کی بجائے عقل کی بنیاد پر کرنا ہونگے، افغانستان کی جغرافیائی اہمیت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،، ہمیں ماضی کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی، مولانا سمیع الحق نے کہاہے کہ افغانستان میں پائیدار قیام کاحل بزرگ مل بیٹھ کر ہی نکال سکتے ہیں، کرزئی کی جانب سے مذاکرات کی دعوت خوش آئند ہے، شہداء کا لہو ضرور رنگ لائیگا، مشکل میں ہیں طالبان مدد کریں، موجودہ حکومت طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، کچھ لوگ فوج اور طالبان میں جنگ چاہتے ہیں جنگ کی حمایت نہیں کرسکتے یہ چھڑ گئی تو شہر شہر میدان جنگ بن جائیگا، سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہاہے کہ خطے کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہے، ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا، ہمیں افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھنے کی بجائے اسے علیحدہ ملک ماننا پڑے گا، شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ طالبان سے مذاکرات پر وزیراعظم پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں، لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ اگر افغانستان میں امن نہ آیا تو پاکستان بھی بدامنی کا شکار رہے گا، پولیو جیسی صحت مندانہ مہم کو شکیل آفریدی جیسے ایجنٹوں کے باعث نقصان پہنچا، افغانستان تیسری سپر پاور کو شکست دے رہاہے۔

(جاری ہے)

منگل کے روز قاضی حسین احمد کی یاد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہاکہ 12 سال میں امریکہ نیٹو افواج افغانستان میں ڈیرے ڈالے رہے لیکن افغانیوں کو زیر نہیں کرسکے۔ دنیا کی 60 فیصد فوج اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں لگی رہی امریکہ کو اب بھی خدشہ ہے کہ افغانستان سے جانے کے بعد اسامہ بن لادن زندہ نہ ہوجائے مگر وہ یاد رکھے کہ اسامہ بن لادن لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

امریکہ افغانستان سے واپس جاتا نظر نہیں آتا ۔ افغانیوں کے ساتھ کی جانیوالی زیادتیوں پر معافی مانگ لی جائے تو امن قائم ہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں پاکستانی قوم کو فوجی آپریشن کا اندازہ ہے انہوں نے کہاکہ کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دو اور پانچ آپریشن ہوچکے ہیں مگر نتائج حاصل نہیں ہوسکے ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہیے کراچی میں روزانہ تیس تیس لاشوں کے تحفے مل رہے ہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کی مخالفت کرکے پاک فوج کی حمایت کررہے ہیں۔

ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ حکمران مذاکرات چاہتے ہیں یا آپریشن کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم اور اپوزیشن سمیت سب کو اندازہ ہورہاہے کہ مینڈیٹ بھاری تھا مگر حکمران اس کے مقابلے میں بہت ہلکے ثابت ہورہے ہیں۔انتخابی وعدے پورے نہیں کرپارہی لگتاہے کہ حکومت اپنے منشور کو بھلا چکی بہتر ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے منشور پر پابندی لگادے تاکہ کوئی اس پر بات نہ کرسکے۔

مذاکرات اگر کئے جائیں تو ان کو سبوتاژ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا کی جنگیں مذاکرات کی میز پر ہی جیتی اور ہاری جاتی ہیں مذاکرات کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے امریکہ کے مکمل انخلاء کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ افغانستان کی اپنی جغرافیائی اہمیت ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اس کو 1980ء سے دیکھنا ہوگا کہ آیا کہ افغان جہاد پر تمام ایک پیج پر تھے کہ نہیں، سوویت یونین کے بعد نیٹو کی افادیت نہیں رہی تھی ۔

مولانافضل الرحمن کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ اور اسلام کو مسائل میں الجھانے کیلئے اس طرح کے اقدامات اٹھائے گئے، 1980ء کی دہائی کے بعد مسلمانوں کو انتہاء پسند کے طور پر پیش کیا جانے لگا، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے حواری پوری دنیا کے وسائل پر قابض ہونا چاہتے ہیں اب وقت آگیاہے کہ مسلمانوں کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں فیصلے جذبات کی بجائے عقل کی بنیاد پر کرنا ہونگے۔ اب جنگ کا بھی تعین ہونا چاہیے کہ وہ وسائل کی جنگ ہے یا اقتدار کی جنگ ہے۔ ہمیں اپنے ماضی کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے ماضی کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہاکہ افغانستان کے بزرگ آپس میں مل کر افغانستان کے امن کا حل نکالیں کرزئی کی جانب سے مذاکرات کی بات خوش آئند ہے افغانستان ضرور آزاد ہوگااور شہداء کا لہوضرور رنگ لائیگا۔

انہوں نے کہاکہ ہم مشکل میں ہیں طالبان ہماری بھی مدد کریں۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ مشرف کے بعد اب موجودہ حکومت امریکہ سے نیامعاہدہ کرنے جارہی ہے جس میں حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے کی شرط ہے ہمیں اب اس جنگ سے نکلنا ہوگا شمالی وزیرستان آپریشن جاری ہے اور اب تک 13ہزار افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم میاں نوازشریف سے 15سالوں میں کوئی ملاقات نہیں کی تھی 31دسمبر کو خود وزیراعظم نے رابطہ کرکے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کہاتھاکہ معلوم کریں طالبان مذاکرات کرنا چاہتے ہیں یا نہیں ۔

مذاکرات کے حوالے سے ہم نے بہت کوششیں کیں جو باور آور ثابت ہوسکتی تھیں کیونکہ طالبان کی جانب سے مثبت جواب آیا 3جنوری کو دوبارہ وزیراعظم سے رابطہ کیا مگر میاں نوازشریف یا حکومت کی طرف سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔انہوں نے کہاکہ ملک میں کچھ لوگ فوج اور طالبان کی آپس میں جنگ لڑانا چاہتے ہیں ہم جنگ کی حمایت کسی صورت نہیں کرینگے کیونکہ اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو پھر شہروں تک پھیل جائیگی اور شہر شہر میدان جنگ بن جائیگا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما افراسیاب خٹک نے کہاکہ افغانستان میں امن نہ آیا تو پورا خطہ متاثر ہوگا کیونکہ خطے کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہے ہمیں اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا اورپرانے نظریات کو چھوڑنا ہوگا، افغانستان کو ہمیں صوبہ سمجھنے کی بجائے علیحدہ ملک تصور کیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہاکہ افغانستان میں بدامنی ہوگی تو پاکستان میں بھی بدامنی ہوگی۔

کسی ملک کو دسرے کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ افغانستان میں تیسری بار سپر پاور کو شکست دی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پولیو قطرے پلانا صرف شرعی نہیں اخلاقی طور پر بھی ضروری ہیں لیکن شکیل آفریدی جیسے ایجنٹوں کی وجہ سے اس صحت مندانہ مہم کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی نے کہاہے کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور وزیراعظم قومی اسمبلی میں آکر اس معاملے پر وضاحت کریں۔ انہوں نے کہاکہ فی الوقت ایسا لگ رہاہے کہ حکومت کنفیوژن کا شکار ہے ۔